کیا انداز اپناوں کہ میری بات عام قاری اور متعلقہ اداروں کے دل میں اتر جائے اورلفظوں کوکیسے دعا میں ڈھالوں کہ رب تک سیدھے پہنچ جائیں ۔ انسانیت کی تذلیل ، موضوع ہی ایسا ہے کہ دماغ اور ہاتھ دونوں پر بیک وقت فالج سا گر جاتا ہے ۔
“ری بوک یوتھ ان ایکشن ایوارڈ 1994 “لینے والا ۱۲ سالہ پاکستانی اقبال جب ۴سال کا تھاتو اس کے باپ نے اسے پیسوں کے عوض بیچ دیا تھا ، اور وہ کارپٹ انڈسٹری میں ہفتے کے سات دن ،بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا اور جسے صرف بارہ ڈالر ملتے ۔ چھ سال کے بعد ایک دن وہ اس ڈراونے خواب سے فرار ہو نے میں کامیاب ہو گیا اور حسنِ اتفاق سے باونڈڈ لبریشن فاونڈیشن فرنٹ کی پناہ میں آگیا ۔ غلامی کے خلاف اعلان جنگ کرتا یہ ننھا سپاہی ، امریکہ تک جا پہنچا اور” غلامی سے آزادی” کی ایک علامت بنتا گیا ۔ اس نے اپنے جیسے ۳۰۰۰ غلام بچوں کو رہا کروایاور اس طرح چھوٹی سی عمر میں ایک بڑا سالیڈر بن گیا ۔۔ مگر چھ ہزار سال تک انسانی خون کے اندر دوڑتی غلام بنانے کی خواہش اتنی کمزور نہیں کہ انسانی حقوق کا شعور اور اینٹی سیلیوری ایکٹ اسے مکمل طور پر فنا کر سکیں ، غلامی کی یہ زنجیریں بہت مضبوط ہیں ۔ معصوم اقبال جس کی آنکھوں میں ساری دنیا کے بچوں کو غلامی سے آزاد کروانے کے خواب تھے ، ان خوابوں سمیت اسے پاکستان میں اس کے آبائی گاوں کی کچی سڑک پر جب وہ اپنی سائیکل چلا کر آزادی کی ہوا اپنے بدن میں اتار رہا تھا ، گولی مار کر مار دیا گیا ۔۔
اقبال مسیح مر گیا ۔ طاقتور کی زنجیر جیت گئی ۔
اسی لئے تو 2016میں ۱۰ سالہ گھریلو ملازمہ، طیبہ کو سیشن جج کی بیوی نے جھاڑو گم کرنے کی پاداش میں اتنا مارا کہ بچی قریب المرگ ہوگئی ۔ اس بچی کے ہاتھ جلائے جاتے تھے ۔ فیصل آباد کے کسی چھوٹے سے علاقے کی یہ بچی اسلام آباد جیسے بڑے شہر میں نام نہادتعلیم یافتہ لوگوں کے گھر کام کرتی تھی ۔ اس بچی کو بھی ماں باپ نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر اس گھریلو غلامی کے حوالے کر دیا تھا اور ایک دن اس پر وہنے والا ظلم میڈیا کی نظروں میں آگیا اور یوں طیبہ ایس او ایس ویلج جا پہنچی اور کسی بھی نارمل بچے کی طرح زندگی گزار رہی ہے مگر کہا جاتا ہے کہ اسے بہت عرصے تک یہ یقین ہی نہیں آتاتھا کہ اسے گھر کی صفائی ، بچوں کو سنبھالنے اور کپڑے دھوئے بغیر بھی جینے کا حق ہے ۔ انٹر نیٹ پر طیبہ گھریلو تشد د ٹائپ کریں تو اس ۱۰ سالہ بچی کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور پھر انسان اپنے ۱۰ سال کے بچے کو دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ دس سال کا بچہ تو اتنا چھوٹا ہو تا ہے کہ اپنے ہاتھ سے نوالہ اس کے منہ میں ڈالا جاتا ہے اور نہلاتے وقت اس کے جسم پر صابن اپنے ہاتھوں سے لگایا جاتا ہے کیونکہ ماؤں کو لگتا ہے کہ اس معصوم کو ابھی زندگی کے ان اطوار کو سیکھنے میں بہت وقت ہے ۔۔۔
اور طیبہ ، اقبال مسیح ۔۔۔۔؟ کیا ان بچو ں کا خدا مختلف ہے ؟ یا یہ بن خدا کے مخلوق ہیں ؟
پاکستان کا ایک اور پڑھا لکھا مگر درندہ صفت چہرہ آرمی آفیسر عامرہ ریاض اور اسکے شوہر ڈاکٹر محسن کا ہے ، جنہوں نے ۱۱ سالہ سمندری کی کنزہ کو اتنے تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس کے نشانات سوشل میڈیا کی نظروں میں آ گئے اور یوں اس بے گناہ کی سنی گئی اور ملک میں طوفان مچ گیا اور وہ جلاد عورت منظرِ عام پر آئی اور سزا پائی ۔ ۔ یہ اکتوبر 2018کی بات ہے ۔ اس کے بعد فروری 2019میں آپ کو ملتی ہے عظمی ۔۔طیبہ اور کنزہ خوش قسمت تھیں زندہ بچی گئیں ۔۔ سولہ سالہ عظمی ،جسے مالکن کی بیٹی کی پلیٹ سے بوٹی اٹھا کر کھانے کی سزا موت کی صورت ملی ۔ ۔گھر کی مالکن ، اس کی نند ، اور بیٹی نے مل کر اسے اتنا ماراکہ اس کی سات نسلیں کسی امیر بچے کی پلیٹ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ کریں گی۔ تشدد سہہ نہ پائی اور بچی مر گئی۔۔ سولہ سال کی بچی ۔۔یہ عمر کا وہ حصہ ہوتاہے جب بچیوں کی آنکھیں ، مستقبل کے سنہرے خوابوں سے اورآنے والے شہزادوں کے تصور سے بوجھل ہو ئی پڑی ہوتی ہیں اور اس عمر کی بچی کی خواہش ایک بوٹی ہو ؟ اور اس خواہش کا انجام موت ہو ، اور موت بھی ایسی جسے قبر نہیں ، گندہ نالہ ملے ۔۔ نیلم بلاک کے پاس بہنے والے گندے نالے کو نہ جانے پاکستان میں رہتے ہو ئے کتنی بار دیکھا ہوگا، یہ جانے بغیر کہ یہ کبھی کسی معصوم کی لاش کو سڑاند سے ڈھانپے گا ۔۔۔
اقبال مسیح زندہ رہ جاتا یا اسے نہ مار دیا جاتا تو پھر یہ طیبہ ، کنزہ اور عظمی کیسے پیدا ہو تیں اور کیایوں مرتیں ؟
ابھی میں،پاکستان کی طیبہ ، کنزہ اور عظمی کی موت جیسی زندگیوں پر اورپھر عظمی کی دردناک موت پر ماتم کناں ہوں کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں ہونے والے اس واقعے نے میرے اندر کی حیرتوں کو بھی حیرت ذدہ کردیا ہے۔۔۔
ایک ماں اور اس کا بوائے فرینڈ چاربچوں، جن کی عمریں محض ایک سے پانچ سال تک کی ہیں انہیں جانوروں سے بدتر حالت میں گھر میں بند رکھتے تھے ،جہاں انہیں نہ ٹھیک کھانا دیا جاتا اور نہ پانی ۔ چار اور پانچ سال والے بچے کتے کے ڈربے میں پاخانے میں لتھڑے پائے گئے تھے ۔پولیس نے انہیں برآمد کر کے چائلڈ پرو ٹیکشن ادارے کے حوالے کر دیا ہے اور ماں اور اس کے بوائے فرینڈ کو جس میں سے ایک بچہ بھی ہے ، حوالات میں بند کر دیا گیا ہے ۔۔۔یہ جدید دور میں انتہائی مہذب ملک میں واقعہ ہوتا ہے ۔۔۔ گو کہ یہ بے حسی ایک نفسیاتی مرض ہے اور اس کا ملک کے کسی سسٹم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سسٹم یہ ہے کہ ان بچوں کو ریاست نے بچا لیا ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ریاست ہر بے بس اور کمزور انسان کی مدد کو پہنچتی ہے ۔ اور جو انسانی حقوق کے حوالے سے قانون سازیاں کی گئی ہیں ان پر من و عن عمل بھی ہو رہا ہے ۔۔نہیں ۔۔ ان مہذب ملکوں میں بھی غلامی آج بھی موجود ہے ۔غلامی کے خلاف قانون انیسویں صدی میں یوکے ، یو ایس اے اور کینڈا میں منظور اور لاگو ہو چکا تھا مگر غلامی اپنی شکل بدلے آج بھی پسماندہ ملکوں کے ساتھ ساتھ ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ ۵ فروری 2019 کوبیری انٹاریو کینڈا کے ہو ٹلوں سے پولیس نے۴۳ میکسیکن” ماڈرن غلام” بر آمدکئے ہیں ۔ سال سے چلنے والی اس انویسٹیگیشن میں ، جو مختلف شہریوں کی شکایات سے شروع ہو ئی تھی ، کینڈین بارڈر ایجنسی اور انٹاریو پولیس کے تقریبا ۲۵۰ آفیسرز کے ساتھ ۱۲ جگہوں پر سرچ آپر یشن کر کے یہ ورکر برآمد کئے گئے ہیں جنہیں میکسکو سے تعلیم اور اچھی جاب کا لالچ دے کر لایاجا تا تھا ۔ وہ دو لوگ جو کلیننگ ایجنسی چلا رہے تھے ،اس کے ذمہ دار ہیں ۔ وہ انہیں صفائی کے کاموں پر لگوا دیتے تھے اور سب کٹوتیوں کے بعد مہینے کے انہیں صرف ۵۰ ڈالر ز ملتے تھے ۔ خوراک اور نیند کی کمی کی وجہ سے وہ کافی بدتر حالت میں تھے ۔
کینڈا دو صدیاں غلامی کی اس فضا کے ساتھ رہا ہے اور بقول تاریخ دان آفو کوپر :
“اس ملک میں کالے دو صدیوں تک غلام رہے ہیں ، یعنی ہم” آزاد “سے زیادہ “غلام “رہے ہیں ” ۔
مگر کیا غلامی اب رخصت ہو چکی ہے ؟ نیچے دی گئی ماڈرن غلامی کی تعریف پڑھیں اور خود فیصلہ کریں :
“جب ایک انسان کسی دوسرے کے کنڑول میں ہوتا ہے اور وہ اس پر تشد د کر کے اپنا کوئی بھی مقصد پورا کرتا ہے” ۔ اس کی قسمیں ہیں چائلڈ لیبر ،زبردستی کی شادیاں ، ہیومن ٹریفگنگ ۔۔آج کی اس جدید دنیا میں ستر میلین غلام مختلف حالتوں میں موجود ہیں جن میں سے 58%انڈیا،پاکستان، چین ،بنگلہ دیش اور ازبکستان میں موجود ہیں ۔ جو چاکلیٹ ہمارے بچے کھاتے ہیں وہ کئی اور بچوں کے گوشت سے بنتی ہے ۔۔۔۔۔ یعنی چائلڈ لیبر کی بدترین حالت ان فیکٹریوں میں ہے ۔۔
امریکہ ہے یا کینڈا ۔۔ازبکستان ہے یا پاکستان ۔۔ تھائی لینڈ ہے یا چین ۔۔۔ بنگلہ دیش ہے یا انڈیا۔۔اکیسویں صدی میں بھی رنگ بدل کے غلامی کی زنجیریں ، سائنسی ترقی اور تہذیب و شعور کے منہ پر زرود دار طمانچہ ہے