Rubina Faisal

Reviews

محمد نواز کھرل ۔۔۔۔
نارسائی ۔۔ تڑپا اور رلا دینے والا ناول ۔۔۔۔
Read More
محمد نواز کھرل ۔۔۔۔ نارسائی ۔۔۔ اپنے قلم کو بےرحم سچائیوں کا علم بنانے والی ، کینیڈا میں مقیم روبینہ فیصل کا پہلا ناول ۔۔۔ دل کی روشنائی سے لکھا گیا تہلکہ خیز ناول ۔۔۔ حرف حرف آنسووں میں بھیگا ہوا ۔۔۔ لفظ لفظ درد میں لپٹا ہوا ۔۔۔۔ جملہ جملہ ضمیر کے بند دروازوں پر دستک دیتا ہوا ۔۔۔۔ چونکا دینے والا آغاز ، تڑپا دینے والا اختتام ۔۔۔۔ نثر ایسی کہ جس پہ شاعری ناز کرے ۔۔۔ مرد کی جوتی تلے گن گن کر سانس لیتی غلام عورتوں کی ذلتوں اور اذیتوں کا نوحہ بیان کرتا اچھوتا ناول ۔۔۔ غیر روایتی زندگی گزارنے کی بھاری قیمت ادا کرتی حوا کی بیٹیوں کی پکار کو للکار بناتا پر تاثیر ناول ۔۔۔۔ کرب کا قلم پکڑ کر درد کی سیاہی سے لکھا گیا منفرد اور مختلف ناول ۔۔۔۔ میں نے 576 صفحات پر پھیلا یہ ضخیم اور عظیم ناول پڑھتے ہوئے آنکھوں میں اترنے والے آنسووں کی نمی اپنی روح کے اندر دور تک اور دیر تک محسوس کی ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ قلم کو چھٹی انگلی سمجھنے والی روبینہ فیصل کا ادبی دنیا میں ارتعاش پیدا کر دینے والا یہ ناول پڑھ کر لرزا دینے والے سفاک سچ کی حیرت ہر قاری کی آنکھوں میں ٹھہر جائے گی ۔۔۔ " معززیت کے پردوں میں چھپے منافق ادیبوں کے سیاہ چہروں اور کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرتا یہ ناول آج سے 40 سال پہلے کراچی میں ریل کی پٹڑی پر سر رکھ کر خود کشی کرنے لینے والی باکمال شاعرہ سارا شگفتہ کی وقت کے کوئلوں پہ دھری زندگی کے حقیقی ، غیر متعصبانہ اور متوازن احوال پر مشتمل ہے ۔۔۔ " پڑھنے والوں کی روح کے اندر صدیوں کی اداسی انڈیلتے ناول " نارسائی " میں زندگی کے محاذوں پر اکیلے لڑتی ، داخلی جلاوطنی کی شکار ایک البیلی کی درد بھری کہانی پوری سچائی کے ساتھ فکشن کے رنگ میں بیان کی گئی ہے ۔ باپ کے زندہ ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی گزارنے والی لڑکی ، جس کے قمیض کے دھاگوں سے اس کی داستانیں لکھی گئیں ۔۔۔۔ ایک ماں کی دلگداز کہانی ، جس کے تین بچے کسی محبت کا نہیں ایک جنسی مریض کی وحشت کا نتیجہ تھے ۔۔۔ نجات کی تلاش میں ریل کی پٹڑی پہ کٹ مرنے والی شاعرہ کی روح فرسا کہانی ، جس کی روح آج بھی ریل کی پٹڑی پر اپنی قبر تلاش کرتی پھرتی ہے ۔۔۔ چار شادیوں اور چار طلاقوں کی اذیت سہنے والی کی کہانی ، جس کی بچہ دانی کرائے کا مکان بن چکی تھی ۔۔۔ تپتی دوپہر جیسی زندگی گزارنے والی کی ادھوری زندگی اور ادھوری موت کی المناک اور دردناک کہانی ۔۔۔ سائرہ ( سارا ) کی کہانی ، جس کی حیاتی آنسووں کی ندی پر تیرتے ہوئے قہقہے کا نام تھی ۔۔۔ جس کی کہانی جھوٹی مگر آنسو سچے تھے ۔۔۔ جس کا پورا جسم مرد کے تخم کے لئے مجسم احتجاج بن چکا تھا ۔۔۔ جس کے لئے اس رنگوں بھرے جہان کے سارے رنگ سیاہ تھے ۔۔۔ ایک ایسی عورت جو جھوٹ نگل نہ سکی اور دنیا نے اسے اگل دیا یا پھر اس نے دنیا کو دھتکار دیا ۔ شوق کمال اور خوف زوال سے آگے نکل جانے والی مستانی سی لڑکی کا ملال بھرا احوال ۔۔۔ تسلی اور ہمدردی کو ترستی ، خون تھوکتی بھری جوانی میں مر جانے والی سائرہ ( سارا ) کی بے چین شاموں اور بے خواب راتوں کا تڑپتا قصہ ، جس کی سہاگ رات کا آغاز اس کے شوہر کی طرف سے کسی تحفے سے نہیں بلکہ دو روپے مانگنے سے ہوا تھا ۔۔ جس کے لئے ہر رشتہ سوالیہ نشان بن گیا تھا ۔۔ جو سفید اداسیوں کی چادر اوڑھ کر انسانوں کے جنگل میں انسان کی تلاش میں بھٹکتی رہی ، رلتی رہی ، بھاگتی رہی ، ۔۔۔ جس کی کوکھ میں اس کا دل مر گیا تھا اور وہ زندگی بھر اس کا جنازہ اٹھائے پھرتی رہی ۔۔ جسے قدرت ماں بنا دیتی تھی مگر ماں رہنے نہیں دیتی تھی ۔۔۔ جس کے وجود کے سارے غرور خاکستر ہو گئے تھے ۔۔ جو زندگی کا توازن قائم رکھتے رکھتے ذہنی توازن کھو بیٹھی ۔۔۔ جس کی زندگی کا اثاثہ فقط رنج رائیگانی تھا ۔۔۔ جس کے ہاتھ سے دعائیں گر گئی تھیں ۔۔ دکھوں کو گوندھ کر شاعری کی روٹیاں اور افسانوں کی ہانڈی ابالنے والی ادیبہ کی زندگی کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا صداقت بھرا بیان ، وہ ادیبہ جس کا وجود مجسم سوال بن گیا تھا کہ کیا خدا صرف مردوں کا ہے ۔۔۔ ایک ایسی مستانڑی کی داستان حیات ، جو خوابوں میں نہیں بلکہ خواب اس میں رہتے تھے ۔۔ جس کے سینے میں سانس نہیں چلتی تھی زنجیر زنی ہوتی تھی ۔۔ جو جان گئی تھی کہ دنیا کا ہر دروازہ اس کی ناف سے ہو کر کھل جاتا ہے ۔۔ جس نے اپنی لاپرواہ بہادریوں کا خمیازہ قدم قدم پر بھگتا ۔۔ جو زندگی کا لباس بدل بدل کر تھک چکی تھی ۔۔ جو حیرتوں ، اذیتوں اور ذلتوں کے سب سمندر پار کر چکی تھی ۔۔۔ جس نے قہقہوں سے غموں کو مات دینے کی کوشش کی ۔۔۔ 13 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے اور 4 جون 1984 کو کراچی میں ایک سیاہ رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتر جانے والی سارا شگفتہ کی کہانی ، جسے ہر ہوس پرست ادیب نے پہلے پکارا ، پھر پچکارا اور پھر دھتکارا ۔۔۔ " نارسائی " اس شاعرہ ( سارا شگفتہ ) کی کہانی بیان کرتا ناول ہے ، جس پر فحاشی کا فتویٰ ہر اس ادیب نے لگایا، جس کے ساتھ اس نے سونے سے انکار کیا ، جس کے لفظوں سے خوفزدہ مرد اس کی کردار کشی کرتے رہے ۔۔۔ جس کے پاؤں میں چھالے اور ہونٹوں پر قہقہے تھے ۔۔۔ ایک دھتکارا ہوا جیون جس کا نصیبہ بنا رہا ۔۔۔ کوئی اس کے پیسے کھا گیا تو کوئی اس کا جسم ۔۔۔۔ یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کی خوبصورتیوں کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے بدصورت ہنر سیکھنے والی لڑکی نے عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا " جج صاحب میرا سابقہ شوہر سچ بول رہا ہے ، میں آوارہ بھی ہوں اور بدچلن بھی ۔ اس لئے تسلیم کرتی ہوں کہ یہ بچے اس شخص کے نہیں ہیں ، صرف اور صرف میرے ہیں ، لہٰذا میرے بچے میرے حوالے کئے جائیں " کیفیات کو زبان اور منظروں کو دھڑکنیں دینے والی باکمال نثرنگار روبینہ فیصل کا ناول " نارسائی " پڑھ کر آپ جان پائیں گے کہ ایک باشعور لڑکی کے لئے ننگے پن کا خوف کیوں ختم ہو گیا تھا ۔۔ یہ ناول آپ کو بتائے گا کہ وہ کون شاعر اور صوفی دانشور تھا جس کی بیوی اس کے مردہ بچے کو تنہا ہسپتال میں جنم دے رہی تھی اور وہ صوفی دانشور اپنے گھر شاعر دوستوں کے ساتھ فلسفیانہ بحثوں میں مصروف تھا ۔۔ جس کی بیوی نے مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد لڑکھڑاتے جسم کے ساتھ گھر پہنچنے پر ، گھر کی بیٹھک میں اپنے ادیب شوہر کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے ادیبوں کو اپنے پستانوں سے بہتے دودھ کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ " یہ مردہ بچے کی خوراک ہے ، تم لوگوں کو چائے اسی دودھ سے بنا دوں؟ " ۔۔۔۔ قارئین کرام ! خودکشی کرنے والے کا بھی کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے ۔ جسم سے آنکھیں مانگتی سائرہ ( سارا شگفتہ ) کا قاتل کون تھا ؟ اس سوال کے جواب کے لئے آپ کو " نارسائی " پڑھنا ہو گا ۔ یہ ناول ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سارا شگفتہ جیسی لڑکیوں کے جسم کے توسط سے ان کی تخلیقات کو سمجھنے والا ہر ہوس پرست نقاد ، ہر منافق ادیب ، ہر ظالم مرد ، ہر مظلوم عورت اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہے ۔۔۔ ماں سے آدھی روٹی اور آخری روٹی مانگنے والی ، ٹوٹی پھوٹی سائرہ ( سارا ) کے عکس میں ہر مظلوم اور محکوم عورت کو اپنا عکس دکھائی دے گا ۔۔۔ یہ ناول سوال اٹھاتا ہے کہ لذتوں میں شراکت دار مرد ذلتوں اور اذیتوں کا شریک کار کیوں نہیں ہوتا ؟ ۔۔۔ مرد اور عورت کے لئے اس دنیا کے اصول مختلف کیوں ہیں ؟ ۔۔۔ میرے لفظ پڑھنے والے پیارے قارئین ! کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ لمحہ موجود کا وہ کون صوفی دانشور تھا جس نے اپنے ہی گھر پہ اپنی بیوی کو اپنے شاعر دوست کی بانہوں میں دیکھا ؟ آج ادب کی اونچی مسند پر بیٹھ کر اخلاقیات کے بھاشن دینے والا وہ کون تھا ، جو اپنی بیوی کو طلاق دینے کے فورا بعد حلال حرام بھول کر ساری رات اپنی سابقہ بیوی کے جسم سے لطف اندوز ہوتا رہا ؟ کس شاعر کی بیوی نے اپنا بچہ اپنی کوکھ میں ہی ضائع کروا دیا ؟ اور ایسا کیوں کیا ؟ ان سارے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لئے آپ کو روبینہ فیصل کا ناول " نارسائی " پڑھنا ہو گا ۔۔ منافقت سے لتھڑے ادبی ماحول ، پدر سری سماج میں عورت سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک اور مذہب کے غلط استعمال سے متعلق سوالات اٹھاتے ، روبینہ فیصل کے ناول " نارسائی " کی زبان نہایت متاثرکن اور تخلیقی ہے ۔۔۔ ناول کا بہاؤ اور روانی کمال ہے ۔۔ کہیں بوریت کا احساس نہیں ہوتا ۔۔ کہیں کچھ اضافی نہیں ۔۔ مجال ہے جو کہیں بھی بیان میں بے لطفی آنے دی ہو ۔۔ یہ ناول قاری کو سرشار بھی کرتا ہے اور بے قرار بھی ۔۔ تخلیقی تمازت نے اس ناول کو نیا لب و لہجہ عطا کیا ہے ۔۔ مجھے یقین ہے کہ " نارسائی " روبینہ فیصل کو ادبی منظر نامے پر ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گا ۔۔۔ زندگی کی لایعنیت ، یکسانیت اور بے معنویت ، دکھوں کی اذیت اور شب و روز کی بوریت سے گھبرا کر خودکشی کر لینے والی سارا شگفتہ کی روح اس ناول کی اشاعت پر یقیننا ہنس رہی ہو گی ، خوشی کی ہنسی ۔۔۔ یہ ناول سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے ۔
John Doe
John Doe
Read More
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
John Doe
John Doe
Read More
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
John Doe
John Doe
Read More
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Previous
Next
Scroll to Top