“BEUPARI “بیوپاری — Written and directed by Rubina Faisal. Watch Now | 💬 Read Reviews | 🌐 Visit Official Website

Reviews

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ۔ گمشدہ سائے

مقبول اکیڈمی کے جناب ملک مقبول احمد صاحب کے ادم سدھار جانے سے دیکھا ہوا چلا جاتا تھا کہ ان کاخلاء مدتوں پر نہ ہو سکے گا مگر قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے ملک صاحب کے کام کو برتری احسن سنبھالا دیے ہوئے ہیں نتنے کتاب سینئر اور نئے لکھنے والوں کو ہمارے لئے فردوس نظر بنتی رہتی ہیں زیر نظر گمشدہ سائے اسی سلسلے کی کری ہے عزیزی روبینہ فیصل کی یہ ڈھیر درجن سے بھی زائد کہانیاں پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کتاب کے خوبی یہ ہے کہ مختصر ہے پھر یہ کہ بعض کہانیاں مختصر ترین ہیں جو ایک ایک صفحے کو محیط البتہ مفہومی اعتبار سے مکمل اور بھرپور ہے.
بعض چونکا دینے والے جملے جو پوری پوری کہانی دکھائی دیتے ہیں مثلا “شیری اور ہاف بلائنڈ گورا” میں وہ لکھتی ہیں کہ اج میں اتنی مضبوط ہو گئی ہوں کہ ایک مرد کو دھوکہ دینے کی طاقت رکھتی ہو‍‍ں۔ گمشدہ سائے میں زیر لب تبسم اور حیرت انگیز تجسس جابجا پیغام کی صورت میں پڑھنے کو ملتا ہے یہ بہت خوبصورت افسانوں کا مجموعہ ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ !!!

محمد نواز کھرل ۔۔۔۔
نارسائی ۔۔۔ اپنے قلم کو بےرحم سچائیوں کا علم بنانے والی ، کینیڈا میں مقیم روبینہ فیصل کا پہلا ناول ۔۔۔ دل کی روشنائی سے لکھا گیا تہلکہ خیز ناول ۔۔۔ حرف حرف آنسووں میں بھیگا ہوا ۔۔۔ لفظ لفظ درد میں لپٹا ہوا ۔۔۔۔ جملہ جملہ ضمیر کے بند دروازوں پر دستک دیتا ہوا ۔۔۔۔ چونکا دینے والا آغاز ، تڑپا دینے والا اختتام ۔۔۔۔ نثر ایسی کہ جس پہ شاعری ناز کرے ۔۔۔ مرد کی جوتی تلے گن گن کر سانس لیتی غلام عورتوں کی ذلتوں اور اذیتوں کا نوحہ بیان کرتا اچھوتا ناول ۔۔۔ غیر روایتی زندگی گزارنے کی بھاری قیمت ادا کرتی حوا کی بیٹیوں کی پکار کو للکار بناتا پر تاثیر ناول ۔۔۔۔ کرب کا قلم پکڑ کر درد کی سیاہی سے لکھا گیا منفرد اور مختلف ناول ۔۔۔۔ میں نے 576 صفحات پر پھیلا یہ ضخیم اور عظیم ناول پڑھتے ہوئے آنکھوں میں اترنے والے آنسووں کی نمی اپنی روح کے اندر دور تک اور دیر تک محسوس کی ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ قلم کو چھٹی انگلی سمجھنے والی روبینہ فیصل کا ادبی دنیا میں ارتعاش پیدا کر دینے والا یہ ناول پڑھ کر لرزا دینے والے سفاک سچ کی حیرت ہر قاری کی آنکھوں میں ٹھہر جائے گی ۔۔۔ ” معززیت کے پردوں میں چھپے منافق ادیبوں کے سیاہ چہروں اور کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرتا یہ ناول آج سے 40 سال پہلے کراچی میں ریل کی پٹڑی پر سر رکھ کر خود کشی کرنے لینے والی باکمال شاعرہ سارا شگفتہ کی وقت کے کوئلوں پہ دھری زندگی کے حقیقی ، غیر متعصبانہ اور متوازن احوال پر مشتمل ہے ۔۔۔ ” پڑھنے والوں کی روح کے اندر صدیوں کی اداسی انڈیلتے ناول ” نارسائی ” میں زندگی کے محاذوں پر اکیلے لڑتی ، داخلی جلاوطنی کی شکار ایک البیلی کی درد بھری کہانی پوری سچائی کے ساتھ فکشن کے رنگ میں بیان کی گئی ہے ۔ باپ کے زندہ ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی گزارنے والی لڑکی ، جس کے قمیض کے دھاگوں سے اس کی داستانیں لکھی گئیں ۔۔۔۔ ایک ماں کی دلگداز کہانی ، جس کے تین بچے کسی محبت کا نہیں ایک جنسی مریض کی وحشت کا نتیجہ تھے ۔۔۔ نجات کی تلاش میں ریل کی پٹڑی پہ کٹ مرنے والی شاعرہ کی روح فرسا کہانی ، جس کی روح آج بھی ریل کی پٹڑی پر اپنی قبر تلاش کرتی پھرتی ہے ۔۔۔ چار شادیوں اور چار طلاقوں کی اذیت سہنے والی کی کہانی ، جس کی بچہ دانی کرائے کا مکان بن چکی تھی ۔۔۔ تپتی دوپہر جیسی زندگی گزارنے والی کی ادھوری زندگی اور ادھوری موت کی المناک اور دردناک کہانی ۔۔۔ سائرہ ( سارا ) کی کہانی ، جس کی حیاتی آنسووں کی ندی پر تیرتے ہوئے قہقہے کا نام تھی ۔۔۔ جس کی کہانی جھوٹی مگر آنسو سچے تھے ۔۔۔ جس کا پورا جسم مرد کے تخم کے لئے مجسم احتجاج بن چکا تھا ۔۔۔ جس کے لئے اس رنگوں بھرے جہان کے سارے رنگ سیاہ تھے ۔۔۔ ایک ایسی عورت جو جھوٹ نگل نہ سکی اور دنیا نے اسے اگل دیا یا پھر اس نے دنیا کو دھتکار دیا ۔ شوق کمال اور خوف زوال سے آگے نکل جانے والی مستانی سی لڑکی کا ملال بھرا احوال ۔۔۔ تسلی اور ہمدردی کو ترستی ، خون تھوکتی بھری جوانی میں مر جانے والی سائرہ ( سارا ) کی بے چین شاموں اور بے خواب راتوں کا تڑپتا قصہ ، جس کی سہاگ رات کا آغاز اس کے شوہر کی طرف سے کسی تحفے سے نہیں بلکہ دو روپے مانگنے سے ہوا تھا ۔۔ جس کے لئے ہر رشتہ سوالیہ نشان بن گیا تھا ۔۔ جو سفید اداسیوں کی چادر اوڑھ کر انسانوں کے جنگل میں انسان کی تلاش میں بھٹکتی رہی ، رلتی رہی ، بھاگتی رہی ، ۔۔۔ جس کی کوکھ میں اس کا دل مر گیا تھا اور وہ زندگی بھر اس کا جنازہ اٹھائے پھرتی رہی ۔۔ جسے قدرت ماں بنا دیتی تھی مگر ماں رہنے نہیں دیتی تھی ۔۔۔ جس کے وجود کے سارے غرور خاکستر ہو گئے تھے ۔۔ جو زندگی کا توازن قائم رکھتے رکھتے ذہنی توازن کھو بیٹھی ۔۔۔ جس کی زندگی کا اثاثہ فقط رنج رائیگانی تھا ۔۔۔ جس کے ہاتھ سے دعائیں گر گئی تھیں ۔۔ دکھوں کو گوندھ کر شاعری کی روٹیاں اور افسانوں کی ہانڈی ابالنے والی ادیبہ کی زندگی کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا صداقت بھرا بیان ، وہ ادیبہ جس کا وجود مجسم سوال بن گیا تھا کہ کیا خدا صرف مردوں کا ہے ۔۔۔ ایک ایسی مستانڑی کی داستان حیات ، جو خوابوں میں نہیں بلکہ خواب اس میں رہتے تھے ۔۔ جس کے سینے میں سانس نہیں چلتی تھی زنجیر زنی ہوتی تھی ۔۔ جو جان گئی تھی کہ دنیا کا ہر دروازہ اس کی ناف سے ہو کر کھل جاتا ہے ۔۔ جس نے اپنی لاپرواہ بہادریوں کا خمیازہ قدم قدم پر بھگتا ۔۔ جو زندگی کا لباس بدل بدل کر تھک چکی تھی ۔۔ جو حیرتوں ، اذیتوں اور ذلتوں کے سب سمندر پار کر چکی تھی ۔۔۔ جس نے قہقہوں سے غموں کو مات دینے کی کوشش کی ۔۔۔ 13 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے اور 4 جون 1984 کو کراچی میں ایک سیاہ رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتر جانے والی سارا شگفتہ کی کہانی ، جسے ہر ہوس پرست ادیب نے پہلے پکارا ، پھر پچکارا اور پھر دھتکارا ۔۔۔
” نارسائی ” اس شاعرہ ( سارا شگفتہ ) کی کہانی بیان کرتا ناول ہے ، جس پر فحاشی کا فتویٰ ہر اس ادیب نے لگایا، جس کے ساتھ اس نے سونے سے انکار کیا ، جس کے لفظوں سے خوفزدہ مرد اس کی کردار کشی کرتے رہے ۔۔۔ جس کے پاؤں میں چھالے اور ہونٹوں پر قہقہے تھے ۔۔۔ ایک دھتکارا ہوا جیون جس کا نصیبہ بنا رہا ۔۔۔ کوئی اس کے پیسے کھا گیا تو کوئی اس کا جسم ۔۔۔۔ یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کی خوبصورتیوں کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے بدصورت ہنر سیکھنے والی لڑکی نے عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ” جج صاحب میرا سابقہ شوہر سچ بول رہا ہے ، میں آوارہ بھی ہوں اور بدچلن بھی ۔ اس لئے تسلیم کرتی ہوں کہ یہ بچے اس شخص کے نہیں ہیں ، صرف اور صرف میرے ہیں ، لہٰذا میرے بچے میرے حوالے کئے جائیں ”
کیفیات کو زبان اور منظروں کو دھڑکنیں دینے والی باکمال نثرنگار روبینہ فیصل کا ناول ” نارسائی ” پڑھ کر آپ جان پائیں گے کہ ایک باشعور لڑکی کے لئے ننگے پن کا خوف کیوں ختم ہو گیا تھا ۔۔ یہ ناول آپ کو بتائے گا کہ وہ کون شاعر اور صوفی دانشور تھا جس کی بیوی اس کے مردہ بچے کو تنہا ہسپتال میں جنم دے رہی تھی اور وہ صوفی دانشور اپنے گھر شاعر دوستوں کے ساتھ فلسفیانہ بحثوں میں مصروف تھا ۔۔ جس کی بیوی نے مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد لڑکھڑاتے جسم کے ساتھ گھر پہنچنے پر ، گھر کی بیٹھک میں اپنے ادیب شوہر کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے ادیبوں کو اپنے پستانوں سے بہتے دودھ کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ ” یہ مردہ بچے کی خوراک ہے ، تم لوگوں کو چائے اسی دودھ سے بنا دوں؟ ” ۔۔۔۔
قارئین کرام ! خودکشی کرنے والے کا بھی کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے ۔ جسم سے آنکھیں مانگتی سائرہ ( سارا شگفتہ ) کا قاتل کون تھا ؟ اس سوال کے جواب کے لئے آپ کو ” نارسائی ” پڑھنا ہو گا ۔ یہ ناول ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سارا شگفتہ جیسی لڑکیوں کے جسم کے توسط سے ان کی تخلیقات کو سمجھنے والا ہر ہوس پرست نقاد ، ہر منافق ادیب ، ہر ظالم مرد ، ہر مظلوم عورت اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہے ۔۔۔ ماں سے آدھی روٹی اور آخری روٹی مانگنے والی ، ٹوٹی پھوٹی سائرہ ( سارا ) کے عکس میں ہر مظلوم اور محکوم عورت کو اپنا عکس دکھائی دے گا ۔۔۔ یہ ناول سوال اٹھاتا ہے کہ لذتوں میں شراکت دار مرد ذلتوں اور اذیتوں کا شریک کار کیوں نہیں ہوتا ؟ ۔۔۔ مرد اور عورت کے لئے اس دنیا کے اصول مختلف کیوں ہیں ؟ ۔۔۔
میرے لفظ پڑھنے والے پیارے قارئین !
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ لمحہ موجود کا وہ کون صوفی دانشور تھا جس نے اپنے ہی گھر پہ اپنی بیوی کو اپنے شاعر دوست کی بانہوں میں دیکھا ؟
آج ادب کی اونچی مسند پر بیٹھ کر اخلاقیات کے بھاشن دینے والا وہ کون تھا ، جو اپنی بیوی کو طلاق دینے کے فورا بعد حلال حرام بھول کر ساری رات اپنی سابقہ بیوی کے جسم سے لطف اندوز ہوتا رہا ؟
کس شاعر کی بیوی نے اپنا بچہ اپنی کوکھ میں ہی ضائع کروا دیا ؟ اور ایسا کیوں کیا ؟
ان سارے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لئے آپ کو روبینہ فیصل کا ناول ” نارسائی ” پڑھنا ہو گا ۔۔
منافقت سے لتھڑے ادبی ماحول ، پدر سری سماج میں عورت سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک اور مذہب کے غلط استعمال سے متعلق سوالات اٹھاتے ، روبینہ فیصل کے ناول ” نارسائی ” کی زبان نہایت متاثرکن اور تخلیقی ہے ۔۔۔ ناول کا بہاؤ اور روانی کمال ہے ۔۔ کہیں بوریت کا احساس نہیں ہوتا ۔۔ کہیں کچھ اضافی نہیں ۔۔ مجال ہے جو کہیں بھی بیان میں بے لطفی آنے دی ہو ۔۔ یہ ناول قاری کو سرشار بھی کرتا ہے اور بے قرار بھی ۔۔ تخلیقی تمازت نے اس ناول کو نیا لب و لہجہ عطا کیا ہے ۔۔ مجھے یقین ہے کہ ” نارسائی ” روبینہ فیصل کو ادبی منظر نامے پر ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گا ۔۔۔
زندگی کی لایعنیت ، یکسانیت اور بے معنویت ، دکھوں کی اذیت اور شب و روز کی بوریت سے گھبرا کر خودکشی کر لینے والی سارا شگفتہ کی روح اس ناول کی اشاعت پر یقیننا ہنس رہی ہو گی ، خوشی کی ہنسی ۔۔۔
یہ ناول سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے ۔

تحریر: ڈاکٹر بلند اقبال

اچانک میر سوئے ہوئے وجودی آنکھ ایک جھٹکے سے کھل گئی۔لاہور کا بس اسٹاپ  بھانت بھانت کے کرداروں اور کہانی سے امڈ رہا تھا۔ اس سے قبل کہ قصور کا سفر شروع ہوتا چار نے کردار اچانک میری اگلی سیٹ پر براجمان ہو
گئے۔

.میں نے دھیمے سے اپنی پلکوں کی چلمن کو سمیٹا اور اس کی نئی کہانی کی تشکیل میں ان کرداروں کی افسانوی حیثیت کا تعین کرنے لگا
کردار… جو کسی بھی کہانی کے بنیادی ڈھانچے کے لئے ستون کا درجہ رکھتے ہیں اب میرے سامنے اپنی چال ڈھال اور گفتگو سے کچھ جانی
انجانی شکلوں میں ڈھلنے لگے تھے۔ 
میں بس کی پچھلی سیٹ پر اڑا لیٹا ہوا ان کے کرداروں کی سمایاں نقصیاتی ساخت میں الجھنے لگا تھا۔ ان چاروں کرداروں میں ایک قدر تو خیر سے مشترک تھی کہ چاروں کردار وجود زن سے تعلق رکھتے تھے فرق یہی تھا کہ گزرتے وقت کی شدت اور منفی سماجی تربیت تین کرداروں کو کائنات میں بے رنگی کا سبب بنا دیا تھا جبکہ ایک کردار میں کارنک ابھی پھولوں کی خوشبو اور پنکھڑیوں کی رنگت میں بہار کا منتظر تھا۔ لمحہ بھر میرا احساس تقویت پانے لگا کہ شعوری طور پر چار نسائی کے متضاد نفسیاتی رویے کی تشکیل دراصل تخلیق کار کا غیر متوازن سماجی تربیت پر احتجاج کا سبب ہے۔ عمروں کا یہ فرق جہاں ایک طرف معصومیت کی دلیل کی شکل میں ‘میں’ سے خود ستائشی اور خود کلامی کے ذریعے مثبت اور منفی کرداروں کی مصنوعی تقسیم کا سبب بن رہا تھا تو دوسری طرف میرے اس گھما کو کچھ کچھ یقین میں بھی بدل رہا تھا کہ بقیہ تین نسائی کرداروں کی فکری پرا گندگی کوئی نمایاں کرنے کا یہ روایتی انداز ‘میں’ کی مرکزیت کو کمزور بھی کر سکتا ہے ۔ میں ہی خود ستاشی ترجے فکر سے تنگ ا کر نہ جانے کیوں ایک بار تو میرا دل چاہا کہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر نوجوان میں کاشانہ ہلاؤں اور کہوں بی بی بازار میں بگنے والی اجناس بالاخر بازاری ہو جاتی ہے فرق صرف نئے اور پرانے بازار سے نا اشنائی کا ہے۔ 

اور یہ رانے مال کا بازاریہ تماشا ہی کا ہے۔ قصور پنچھی نے پہلے ہی مجھے کچھ کچھ یقین سا ہو نے لگا کہ ننوجوان نسائی کردار میں اپنی کم عمری یا نہ تجربہ کاری کے سبب کہانی کا مرکزی کردار یا اس کا سہارا بننے کی اہلیت کھو بھی سکتا ہے اور اپنی نفسیاتی خلق اشعار کے سبب کسی بھی گھمبیر معاشرتی مسئلے کی توجہ پیش کرنے میں قطعی ناکام بھی ثابت ہو سکتا ہے مگر۔۔۔ کمزور روایتی کرداروں کی مدد سے مضبوط غیر روایتی کہانیوں کی تشکیل سے تو ادب کی تاریخ بری ہوئی ہے یہ سوچ کر میں نے بس کی کھڑکی پر اپنا سر ٹکا دیا اور چپ چاپ قصور کا انتظار کرنے لگا وہی قصور جہاں بابا بلھے شاہ کا مزار ہے اور جہاں کے کھسے اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں۔۔۔ میں اندر ہی اندر تخلیق کار کے ان روایاتوں کے مشترک استعمال پر غور کرنے لگا اور سفر کے اس مقام تک جب کوئی قدر مشترک نہیں پایی تو آنکھیں بند کر کے قصور کے  کھسووں کی ساخت پر غور کرنے لگا۔

بس قصور پہنچی اور میں کہانی کے بنیادی کردار تک ۔۔۔ وہ کردار جو اپنے کندھوں پر کہانی کا بوجھ اٹھایا ہوا تھا۔۔۔ ایک بدصورت اور اب نارمل لڑکی کا کردار جب اپنے دکھنے اور برتنے میں مختلف ثابت ہو سکتا تھا۔ قبل اس کے میں مرکزی کردار کی متضاد شکل پر غور کرتا وہ مجھے شربت کا گلاس تھما کر میری نظروں کے سامنے سے دھندلاتا چلا گیا اور میں چپ چاپ ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس نوجوان نسائی کردار میں کنفیاتی الجھنوں میں دوبارہستہ چلا گیا۔۔ یکا ایک غیر متوازن سیفت کردار میں کو ایک بار پھر نہيف کر گئی خصوصر اس کا احساس کہ کل میں خود بھی اس تجربے سے گزرے گی جب اس کی چال ڈھال سورو شکل اور رضا کی نمائش ہوگی اور وہ بھی بکاؤ مال کی ترہ سجائی جائے گی۔ اس خیال کے اتے ہی ایک گمبیر سماجی مسئلہ تخلیق کار کے ہاتھوں سے نکل کر محسیک انفرادی ان سکیورٹی میں سمٹ گیااور بس میں پیدا ہونے والے میرے گمان کو یقین بدل گیا کہ تخلیق کار جس سماجی گھمبیرتا کو کردار میں کے سہارے بحث کرنا چاہ رہا ہے وہ کردار خود معاشرتی شعور کی کی تلخیوں سے قطعی نہ بلند ہے عین اس لمحے جب میں کردار میں اسے مایوس ہو کر اپنے خالی گلاس کی کھنک گھور رہا تھامیری نظر دفعہ تن اپنے خوبصورت کھسوؤں پہ پڑی۔۔ میرے کھسے جو ایک لمحے پر محض کھسے تھے اچانک ایک بدصورت لڑکی کی شکل میں بدل گئے۔ مجھے لگا ایک لمحے میں ایک ٹرین اف تھاٹر قصور کے اس بدنصیب گھر کے ڈرائنگ روم سے نکلی اور بنا کسی اسٹیشن پر رکی صدیوں پ محیط نسائی تاریخ کے عمل کو ایک جملے میں دہرا گئی اس لڑکی سے اچھے تو قصور شہر کے کھسے ہیں۔

قصور کے کھسے۔۔۔ محترمہ روبینہ فیصل کی ایک روایتی سی بیانیہ کہانی ہے جب مظاہر اپنے کمزور کرداروں کے کندھوں پر سوار ہو کر ایک بس کے سفر سے شروع ہوتی ہے مگر اپنے اختتام پر اچانک ایک غیر روایتی انداز سے ایک اہماجی نسائی مسئلے سے اپنے قارین کو دوچار کرتی ہے۔ عورت اس کہانی کا موضوع ہے اور عورتیں ہی اس کہانی کے مجھ پر منفی کردار بھی ہیں جو شعوری اور لا شعوری طور پر عورتوں کے مسائل کے جویح حد تک سبب کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کہانی کی حدود کہیں کفایت لفظی کا تقاضا کرتی ہیں۔ جیسے کہ کسی نے کہا ہے کہانی لکھنا چاول پر قل ہو اللہ لکھنے جیسا  عمل ہے ۔ کہانی بظاہر کسی مقصوص فلسفے کتابیں نہیں ہیں مگر صدیوں پرانی مریضانہ، تہذیبی روایت کو ایک بار پھر کڑوے کسیلے طنز کے ذریعے اپنے کارین سے دو چار کرتی ہےاور اخری چند شبدوں میں گہری معنویت سے ایک بلندی عطا کرتی ہے

محترمہ روبینہ فیصل صاحبہ کی کہانیوں کو محیط گمشدہ سائے ایک خوبصورت معاشرتی اظہار یہ ہے جسے صحافتی انداز میں مختصر اور اثر پذیری کے اہم سے ہم اہنگ کیا گیا ہے۔ بہت کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم زیر نظر کہانیوں کی منفرد شناخت ہے گمشدہ سائے میں بعض کہانیاں محذ ایک صفحے کی ہیں اور بہت خوب ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تجرباتی رنگ اور مشاہداتی حسن نمایا ہے ہر چند کے الفاظ کی تنگ دامنی کا احساس گاہےگاہے کاری کو ہوتا ہے مگر کہانی کی بنت اور سادگی اپنے تائیں مائل کئی رکھتی ہے صلحہ نامہ میں کہانی میں انابستی اور دم طور پرتی انسانیت کو دلاویز انداز میں دیکھیے
اؤ ایک دوسرے کی پناہ میں اکر خوشی خوشی یہ شکست مان لے اور میدان میں رہ کر لڑنے یا میدان سے بھاگ جانے کے سب راستے بند کر دیں اور بس اناؤں مجبوریاں رسموں و زنجیروں اور ضرورتوں کے تمام ہتھیار پھینک دیں ایک دوسرے کی ذات میں اپنی اپنی ذاتوں کا سرینڈر کرلیں اور میثاق محبت کے نام سے کسی اساطیری داستان میں قسمت کے اس لکھے کو درج کروا کر ایک دوسرے کی ذات میں کچھ کہے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پناہ غزی ہو جائیں اور انے والی نسلیں اس محبت کو حیرے سے پڑھیں گی جس میں اس کی موت ہو گئی تھی مگر اس کی حرمت کو بچا لیا گیا تھا اؤ بغیر دستخط کے عمر بھر کا صلح نامہ کرلیں۔
گمشدہ سائے میں اسی طرح کے جذبات احساسات اور صلح حنا میں اپنے اندر امن و اشتی کا پیغام لیے ہیں، محترمہ روبینہ فیصل نے کئی نئی نسل کو گمشدہ سایہ کی صورت میں گم گزشتہ محبت ا احساس دلایا ہے وہ مبارکباد کے مستحق ہے۔ قلمیشن انٹرنیشنل کے چیئرمین جناب علامہ عبدالستار عاصم کا اشاعتی معیار اور غیر محسوس انداز میں یہ تبلیغی انداز قابل تحسین ہے۔۔۔

سلام روبینہ جی، میں نے اپ کا ناول نارسائی پڑھا ہے ، پڑھا کیا ہے اس ناول نے مجھے باندھ دیا اور کہیں کا نہیں رہنے دیا جب تک کہ مکمل پڑھ نہیں لیا اس نے سحر میں جکڑ کر رکھا میرے شب و روز اس ناول کے ساتھ ایسے گزرے کہ جیسے کسی اور چیز کا ہوش ہی نہ ہو ۔
میرے اس دورے میں دیگر کئی ادیبوں نے بھی اپنی کتابیں عنایت فرمائی تھی اور ان کا بھی مطالعہ کیا اور اچھا لگا لیکن اپ کے ناول نے تو وہ کام کیا جس کی مجھے توقع نہیں تھی میں لاتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا اور شروع کرتے ہوئے اس سے بھی زیادہ ڈر رہا تھا اور میرا ڈر ٹھیک نکلا کہ اس نے مجھے ہلنے تک نہیں دیا بہرحال پہلا تاثر جو اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ بار بار ذہن میں آتا تھا وہ تھا جینیس ۔
میں حیران ہوتا تھا کہ ایک خاتون کا وژن اتنا وسیع اور ان کی سوچ کا کینوس اتنا بڑا ہے کہ اس میں کائنات کے تمام رنگ سما گئے ہیں اپ نے کرداروں کو جس طرح سے برتا ہے وہ حیران کن ہے اور ناول کو ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی دلچسپ کہانی بنائی کہ ایک ایک جملہ ایک ایک پیراگراف اور ایک ایک صفحہ اپنے اندر ایک جہان اسرار سمیٹے ہے میں اس سے لطف اندوز بھی ہوا اور سیکھا بھی اور یہ بھی جانا کہ ذہانت کسی کی میراث نہیں ہے اور وہ اور خدا جب کسی کو نوازتا ہے تو وہ کتنا غفار ہوتا ہے کہ ایک شخصیت کو اتنی صلاحیتوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔
یہ بھی جانا کہ ادیب کا مشاہدہ کس حد تک گہرائی میں اتر سکتا ہے لفظ تو جیسے اپ کے اگے ہاتھ باندھے کھڑے تھے اتنے خوبصورت جملے اتنے دل نشیں الفاظ اور اتنی روانی کہ جیسے پہاڑی چشمہ بہتا جا رہا ہو۔
مجھے افسوس ہے کہ میں نے نہ پہلے اپ کو کہیں پڑھا تھا نہ اپ کے بارے میں سنا تھا اردو دنیا سے دور رہنے کے یہ نقصانات تو ہیں اور خاص طور پر اسٹریلیا جیسے ملک میں رہ کر تو یہ کمی بری طرح محسوس ہوتی ہے بہرحال دیر آید درست آید ۔ اپ سے مل کر اپ کی گفتگو سن کر اور پھر اپ کی کتاب پڑھ کر بہت اچھا لگا دلی مسرت ہوئی
میں اپ کو بہت زیادہ مبارکباد دیتا ہوں ۔ اس وجہ سے بھی خوشی ہے کہ ایک خاتون ہو کر اس دلیری سے معاشرے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتی ہیں جو بڑے بڑے بزہم خود دلاور بنے لوگ بھی نہیں کر پاتے ۔
میری دعائیں اور نیک خواہشات اپ کے ساتھ ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
طارق مرزا 
آسٹریلیا

دیر آید درست آید
اس شاہکار کا بہت شدت سے انتظار تھا ۔ سحرش عثمان کا میرے ناول نارسائی پر ایک جامع اور درد انگیز تبصرہ :

نارسائی کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنےکا کہا جاتاتومیں کہتی بے بسی۔
بےاختیاری بے کسی۔
پر افسوس ایک لفظی جواب شادی میں تو چل سکتے ہیں دوستی میں نہیں۔ اور دوستی بھی وہ جس میں دوست نے آپ کو کتاب بھیج کر زیر بار کر رکھا ہو۔اور تبصرے کی امید ناز کا مان بھی ہو۔
ہک ہاہ۔۔۔ جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ کی مانند ایک طرف تو ان کا گھر یعنی روبینہ کا واٹس ایپ تھا دوسری طرف مئے خانہ یعنی ہماری سستی و کاہلی۔ جسے ہم بچوں کے کاموں کی آڑ میں ڈھک رکھتے ہیں لیکن کب تک۔
ہر روز کتاب ہمارا منہ چڑاتی کچھ دن پہلے یہ کہہ کر میری بیٹی نے شرمندہ کردیا کہ مما آنی از سو پریٹی۔
اسی شرمندگی کے زیر اثر کتاب دوبارہ کھولی اور پھر کچھ صفحے پڑھ کر بند کردی۔
نارسائی میرے لیے مکمل پڑھنا ممکن ہی نہیں ہے اس کو پڑھ کر جذب کرلینے سے جو تلخی اور دکھ میرے اندر بھر جائے گا اس کا اخراج ہوجانے تک میں نارمل زندگی نہیں گزار پاؤں گی اس لیے روبینہ آپ کی کتاب آدھی پڑھی رکھی ہے اور جو پڑھ رکھی ہے وہ میرے اندر ملال کی صورت گھل گئی ہے۔
اب میں کتاب کی صورت ایک سہم پال بیٹھی ہے اسے مکمل نہیں پڑھتی تو تشنگی رہتی ہے مکمل کرلی تو دکھ رہ جائے گا۔
اس سماج کی تشکیل میں جو ہم سے غلطی ہوئی ہے اس کا دکھ بیٹیوں کے محفوظ نہ ہونے کا دکھ۔ بیٹی کو فرد نہ سمجھنے کا دکھ۔ آگہی کا دکھ احساس کا دکھ۔
شاعر کی ادیب کی ذہنی تشنگی کا دکھ۔انٹلیکٹ کی توہین کا دکھ۔ اور فرد کی ذہنی تنہائی کادکھ
سارہ شگفتہ کا دکھ اور ثروت حسین کا دکھ۔
اس کتاب کو میں ایک خاتون کا دکھ یا خاتون کی کہانی ہی سمجھتی جو میں نے ثروت حسین کی شاعری کی اداسی اپنے دل میں گھلتی نہ محسوس کی ہوتی۔
ویسے آسان ہوتا نا اگر میں بھی صرف سارہ شگفتہ کی زندگی میں موجود مردوں پر دشنام طرازی کردیتی۔ لیکن آپ کے کتاب نے مجھے ایسا کرنے سے روکے رکھا کتاب نے کہیں بھی مجھے صنف کی یا جنس کی بحث میں نہیں الجھایا۔ آپ کے ناول نے مجھے سماج میں زور آور کے کردار اور اس کی اثر پذیری کے نئے رموز سے روشناس کروایا۔
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مذہب کی تشریح زور آور کرتا ہے اور یہ بھی کہ سماج کی بنت میں زور آور کی مرضی چلتی ہے لیکن یہ راز مجھ پر آپ کے ناول نے کھولا کہ زور آور چاہے تو ذہنوں میں زہر بھر دے۔ روحوں پر قبضہ کرکے انہیں غلام بنا لے۔
بہت سال پہلے جب ولیم بلیک کو پڑھا تو ڈاکٹر فاسٹس کی ” تقریر” نے ایک “سوال” کا جواب نہیں دیا کہ کوئی روح کا سودا کیسے کرسکتا ہے ؟ بھلا روح بھی کوئی بیچنے یا خریدنے کا مال ہے.
نارسائی نےاندر دور کہیں لگی ہوئی اس سوال کی گرہ بھی کھولی ہے جب کوئی شخص ہوس میں اندھا ہو جاتا ہے تو پھر روح بیچنا اس کے لیے معنی نہیں رکھتا وہ ہوس چاہے مال کی ہو جسم کی ہو یا اقتدار کی انسان کو انسانیت سے گرانے میں لمحہ لگاتی ہے۔
سارہ کے پہلے شوہر نے اور اس کے باپ نے جسم اور مال کی ہوس میں اپنی اپنی روحوں کا سودا کیا۔ لیکن اس سب میں شدید دکھ کا مقام وہ آیا جب ہار سارہ کی ہوئی۔
اور ہار بھی جیتنے کی عمر میں ہوئی اور جینے کی عمر میں کوئی موت کو گلے لگا لے تو بتائیں تلخیاں من میں بسیرا کیوں نہ کریں۔
آپ کی کتاب نے سارہ شگفتہ کے ثروت حسین کے اور کئی اوروں کے دکھ کو سمجھایا مجھے۔کہ جینے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور مرجانا کوئی سزا نہیں ہوتی۔
مر جانا کوئی المیہ نہیں۔ بعض اوقات تو موت زندگی سے نجات دلانے کو آتی ہے۔ کسی کے لیے موت نجات دہندہ بن جاتی ہے۔ کوئی موت کے آنے کو صحرا کے سفر میں پانی ملنے جیسا سمجھتے ہیں اور غٹا غٹ پی جاتے ہیں کسی بھی دوسرے خیال کے آنے سے پہلے۔
نارسائی نے ایک گرہ زندگی اور موت کے فلسفے والی بھی کھولی۔ یہ عقدہ کھلا کہ کوئی کیسے جیتا جاگتا وجود ذرہ ذرہ مرتا رہتا ہے زندگی موم کی مانند قطرہ قطرہ گھلتی رہتی۔ بند مُٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتی رہتی ہے۔ دکھ دیمک کی طرح روح کو چاٹ جاتے ہیں اور لکڑی سا وجود کسی دن اچانک گر جاتا ہے۔ اور نام قسمت کا بدنام ہوتا ہے۔ دکھ کے دیمک کو کوئی نہیں مارتا۔
ویسے دکھ کا دیمک مرا بھی ہے کبھی؟
یہ انسان کا وہ ساتھی ہے جو خوشی کے لمحوں میں بھی اپنے ہونے کا احساس جانے نہیں دیتا۔
اس کتاب نے محبتوں کے گلابی پن بھی دکھائے پر افسوس حقیقتوں کے سرمئی نے محبتوں کے گلابی کو کھلنے نہ دیا۔ مجھے دکھ رہے گا آپ نے اس ناول میں حقیقت کا سرمئی اتنی سختی سے اس سماج کے منہ پر مارا ہے کہ بے حسی کا آسرا نہ ہوتا تو ہماری کئی نسلیں اس دکھ اس اداسی کو کسی بوڑھے کی طرح پہلی صف کی چاہت جیسا سینے سے لگا کر رکھتیں
یہ تحریر نا مکمل ہے یہ نا مکمل ہی رہے گی۔ میرے الفاظ اس احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جس نے مجھے گھیر رکھا ہے۔
میں صرف یہ لکھ سکتی ہوں کہ اگر دنیا کی ساری زبانوں کے سارے سخت لفظ اکھٹے کرلیے جائیں اور اگر لفظ بولنا سیکھنے سے اب تک بولی سمجھی جانے والی متروک ہوچکی بھول چکی ساری زبانوں کی گالیاں اکھٹی کرلی جائیں اور کوئی ایک گالی بنائی جائے تو وہ بیٹوں کے منہ سے ماؤں کے لیے بدکرداری کی گالی ہوگی۔ اس گالی کے بعد سارہ شگفتہ کا اپنے وجود کے پرخچے اڑانا بنتا تھا اس لفظ کے بعد ماں کا مرجانا ہی بنتا ہے عمر چاہے انتیس ہو یا انسٹھ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بیٹے ماؤں سے کرداروں کی گواہیاں مانگنے لگ جائیں تو بتائیں مائیں جی کر کیا کریں؟
سحرش عثمان

کتاب: نارسائی
مصنفہ: روبینہ فیصل
تبصرہ: عدنان الیاس

روبینہ فیصل کا ناول نارسائی اردو ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے ، جو نہ صرف اپنے اسلوب کی روانی بلکہ اپنے عمیق اور حساس موضوع کے باعث بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ محض ایک قصہ نہیں ، بلکہ ایک المیہ ہے ، ایک ایسی عورت کی حکایتِ درد جو سماجی قیود ، داخلی کشمکش ، اور جذباتی اضطراب کے سنگلاخ راستوں پر چلتی ہوئی اپنی پہچان اور بقا کی جنگ لڑتی ہے۔۔۔۔۔

ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کا واقعیت سے لبریز اسلوبِ بیان ہے۔ مصنفہ نے سارہ شگفتہ کی زندگی کو ایک روایتی کہانی کی طرح نہیں برتا ، بلکہ اس کے احساسات، جذبات اور حیات کے نشیب و فراز کو یوں بیان کیا ہے کہ قاری خود کو اس کے دکھوں میں گھرا محسوس کرتا ہے۔ نارسائی کا مفہوم یعنی وہ فاصلہ جو کبھی ختم نہیں ہوتا ، ناول کی روح میں پیوست ہے ، کیوں کہ سارہ کی داخلی اور خارجی جنگ کسی ایک لمحے ، کسی ایک موڑ پر ختم نہیں ہوتی ، بلکہ اس کی ہستی میں ہمیشہ کے لیے ایک نارسائی بن کر بسی رہتی ہے۔۔۔۔۔

یہ ناول کسی ایک عورت کی ذات تک محدود نہیں ، بلکہ عورت کی اجتماعی نفسیات ، اس کے کرب ، اس پر مسلط کردہ جبر اور اس کی انفرادی آزادی کی جستجو کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ سارہ شگفتہ کی زندگی محض ایک غم کا سلسلہ نہیں ، بلکہ ایک احتجاج اور ایک فریاد ہے ۔۔
مصنفہ نے سارہ شگفتہ کی شاعری کو صرف ایک ذاتی اظہار نہیں ، بلکہ ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ شاعری ایک تخلیقی عمل سے زیادہ، ایک جبر کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ وہ اپنی تخلیقات میں اپنی کرب انگیز زندگی کی داستان یوں سمو دیتی ہیں کہ ان کے الفاظ درد کی ایک نئی زبان تخلیق کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔
روبینہ فیصل کا اسلوب سادہ ، مگر بے حد اثر انگیز ہے۔ ان کے الفاظ دل پر نقش چھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، اور جب جذبات کی شدت بڑھتی ہے ، تو یہ الفاظ کسی طوفانِ احساس کی طرح قاری کے اندر اتر جاتے ہیں۔ سارہ شگفتہ کی زندگی کے تلخ پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے مصنفہ نے ایسے جملے تخلیق کیے ہیں جو پڑھنے والے کو چونکا دیتے ہیں ، جھنجھوڑ دیتے ہیں ، اور زندگی کے عمیق فلسفے پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔۔۔۔

ناول میں جذباتی شدت اور فکری گہرائی کی ہم آہنگی ، اسے اردو ادب کے بہترین ناولوں میں شامل کرنے کے لائق بناتی ہے۔ یہ کہانی سارہ شگفتہ کی ذات کے مختلف رنگوں کا احاطہ کرتی ہے اور قاری کو ان نادیدہ زخموں سے روشناس کراتی ہے جو ایک عورت اپنے وجود میں سہتی ہے ، مگر کبھی کسی کو دکھا نہیں پاتی ۔۔۔
یہ ناول صرف ایک فرد کی نہیں ، بلکہ پورے سماج کی منافقت ، اس کے تضادات اور عورت کے خلاف اس کے جبر کی نشاندہی کرتا ہے۔۔۔۔
مصنفہ نے عورت کو مظلوم کے طور پر نہیں ، بلکہ ایک باہمت ، حساس اور تخلیقی ہستی کے طور پر پیش کیا ہے ، جو اپنے اندرونی کرب کو شاعری میں ڈھال کر ایک نئی دنیا تخلیق کرتی ہے۔۔۔۔

یہ ناول ایک بنیادی سوال بھی اٹھاتا ہے کہ
کیا شاعری واقعی کسی کے دکھوں کا مداوا بن سکتی ہے ۔۔۔؟
یا یہ محض ایک وقتی فرار ہوتا ہے ۔۔۔۔؟
سارہ کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ شاعری ایک پناہ گاہ ہو سکتی ہے، مگر یہ انسان کے اندرونی زخموں کا مکمل علاج نہیں۔۔۔۔
یہ ناول صرف ایک سوانحی کہانی نہیں ، بلکہ اردو ادب میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہے۔۔۔۔
یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تخلیق اور کرب کے درمیان ایک لازوال رشتہ ہوتا ہے۔۔۔۔
مصنفہ نے جس مہارت اور حساسیت کے ساتھ سارہ شگفتہ کی شخصیت اور زندگی کے المیوں کو بیان حد ظ ظظ ظظکیا ہے ، وہ ناول کو ایک مستند تخلیقی شاہکار بناتا ہے۔۔۔
نارسائی محض ایک ناول نہیں ، بلکہ ایک عہد ، ایک احتجاج ، اور ایک کرب انگیز حقیقت ہے۔۔۔۔۔
یہ ناول عورت کی کشمکش ، اس کی طاقت اور اس کے اندرونی جذبات کا ایک مکمل خاکہ پیش کرتا ہے۔ اگر آپ نے نارسائی نہیں پڑھی ، تو آپ نے اردو ادب کے ایک ایسے شاہکار کو نظر انداز کر دیا ، جو زندگی ، کرب کی سب سے زیادہ سچائی سے بھرپور کہانیوں میں سے ایک ہے۔۔۔۔

یہ کتاب ان تمام قارئین کے لیے لازمی مطالعہ ہے جو ادب کو صرف کہانیوں کا مجموعہ نہیں ، بلکہ زندگی کے گہرے تجربات کا آئینہ سمجھتے ہیں۔ نارسائی وہ تحریر ہے جو روح کو بے چین کرتی ہے ، دل پر اثر چھوڑتی ہے ، اور ذہن میں دیر تک گونجتی رہتی ہے۔۔۔۔

 

بنگلہ دیش سے جب اردو سے محبت کرنے والے آپ کے کام پر یوں لکھیں تو دل خوشی اور محبت سے بھر جاتا ہے ۔
شکریہ شبانہ
ناول : نارسائی ،،،….
مصنفہ… روبینہ فیصل
پبلیشر… سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
تعارف… شبانہ نوید

نارسائ شاعرہ سارہ شگفتہ کی زندگی پر مبنی ناول ہے…… اس سے پہلے بھی کئ کتابیں پڑھ چکی ہوں سارہ شگفتہ کی زندگی پر….. ان کتابوں کو پڑھ کر اس لئے مایوسی ہوئ کہ، زندگی سارہ شگفتہ کی تھی لیکن اسے برتا لکھنے والوں نے تھا…
روبینہ فیصل کے مشاہدات گہرے ہوتے ہیں، وہ کالم بھی لکھتی ہیں… کالم لکھنے کے لئے اپنے گردوپیش پرنظر رکھنی پڑتی ہے، تاکہ موضوع کے ساتھ انصاف کر سکیں.. مسائل سماجی، سیاسی جو بھی ہوں لکھنے کے لئے آگاہی کی ضرورت پڑتی ہے… روبینہ فیصل کے کالموں کا مجموعہ،، روٹی کھاتی مورتیاں،، گواہ ہیں…
کسی ذات پر قلم اٹھانے سے پہلے اس کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتیں جاننا بھی ضروری ہے… قلم کسی کا بھی ہو سکتا ہے لیکن شخصیت ایک مخصوص شخص کی ہوتی ہے…..
روبینہ فیصل عرصہ دراز سے کینیڈا میں مقیم ہیں…چاہے پاکستان ہو چاہے انڈیا ان کی ادبی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے، اس کے لئے انہیں ادبی محفلوں کی رونق ادبی اجتماع میں شمولیت کی ضرورت نہیں… کہتے ہیں،، ادب، ،وہ چھلنی ہے جو بے رحم ہے لیکن سچ ہے…
سارہ شگفتہ ایک زندہ حقیقت تھی، ایک حساس شاعرہ، اس کے اپنے خواب تھے….ایک ایسی عورت کی کہانی جو آسودہ نہیں تھی… خواب کو سچ کرنے اور اپنی نارسائ مٹانے کے لئے اس نے کئ دامن تھامے، لیکن سب کے سب بیکار… دکھ بڑھتے گئے……ابھی بھی ہمارے سماج میں جب عورت اونچے اونچے خواب دیکھتی ہے تو اسے تکمیل کے لئے مرد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے.. مرد جو اپنے ہی کسی خواب کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے. عورت اپنے خواب اپنے بل بوتے پر پورے کر سکتی ہے لیکن ہائے سماج کے چار لوگ، جن میں یکجہتی نہیں زمانے سے چار ہیں….
روبینہ فیصل نارسائ میں بے حد دلگیر انداز میں سارہ شگفتہ کے ساتھ چل رہی ہیں.. اس کے دکھ کی گٹھری اپنے سر پر اٹھائے دوسرے ہاتھ سے اس کی انگلی تھامے ہر نشیب و فراز، دکھ کی اتھاہ گہرائیوں سے گزر رہی ہیں…. اس لئے کتاب پڑھتے ہوئے کہیں یہ احساس نہیں ہوتا ہے،، آپ بیتی،، نہیں ہے، ایک دفعہ بھی روبینہ کے لئے تعریف کے الفاظ نہیں نکلتے،، کیا جان لیوا تحریر ہے،، بلکہ ایک آہ سی نکلتی ہے،، سارہ شگفتہ نے کتنی تکلیفیں اٹھاییں،،…..کتاب ختم کر کے سو چ میں پڑگئ،، روبینہ سارہ کی روح تک میں داخل ہو گئیں، کیسے؟
کسی اور کے دکھ، تکلیف کو زبان دینا مشکل ترین کام ہے…. روبینہ نے بہت مہارت سے اس دکھ کو قلم بند کیا ہوگا… کتنے آنسو گرے ہوں گے، کتنی راتیں بےچینی میں گزری ہوں گی، کتنے الفاظ بے مایہ لگے ہوں گے اس تکلیف کے سامنے….. قاری میرے جیسا قاری ہر سطر محتاط طریقے سے پڑھتا ہے.. کیونکہ روبینہ کی تحریر کے سامنے دل پر سے اپنا اختیار کھونے لگتا ہے… روبینہ جیسا چاہتی ہیں قاری اسی جذبات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے…….کم از کم میرے ساتھ ایسا ہی ہوا…
عورت اور مرد شائد کبھی سماج میں ایک طرح کا مقام نہ پا سکیں.. مرد بیک وقت چار بیویاں رکھ سکتا ہے عورت مختلف ادوار میں طلاق کے بعد وہ بھی اور شادیاں کر سکتی ہے… چار شادیوں پر مرد اور مذہبی
نارسائ کے ہر صفحے پر حقیقت کی تلخی گھلی ہوئ ہے.. کیسے کیسے اجلے روشن چہرے جسے زمانہ سمجھ رہا تھا دراصل کتنے مکروہ، کتنے گھناونے تھے…. ،، اب تک اس کے سامنے سب شاعروں، ادیبوں کے دو دو چہرے آچکے تھے. اب حیرت کا جنازہ مکمل طور پر اٹھ چکا تھا. وہ جان گئ تھی دنیا کی جس مخلوق کو وہ کھرا اور خالص سمجھا کرتی تھی وہ عام لوگوں سے بھی کہیں زیادہ دو رخے ہیں. ان کی منافقت کی تہیں اتنی گہری تھیں کہ انہیں اتارنے کی کوشش میں اکثر اس کا سانس پھول جایا کرتا تھا. اس لئے اب وہ بس سب کچھ دیکھتی، خذب کرتی اور خاموش رہا کرتی،،….،، نارسائ، ،،..
،، وہ سوچتی…،، یہ لوگ جتنے نمائشی اور بودے نکلے ہیں اسی حساب سے انہیں انہی کی سطع پر آکر ملنا چائیے،،.. حیرت کی بات تو یہ تھی کہ بڑے بڑے ادبی لوگوں کی سطع تک پہنچنے کے لئے اسے اتنا نیچے اترنا پڑاکہ وہ خود بھی پستی کے دلدل میں پھنستی چلی گئ. آف!! وہ بڑے بڑے ادبی نام. ادب کے چمکتے ہوئے ستارے…،،. ..،، نارسائ، ،
،،طالب انصاری جو بڑا نقاد اور شاعر تھا، اس کے جسم کے توسط سے اس کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ اس کوشش میں تھی کہ آج یہ نقاد فتح کر لیا تو کل کو اس کی شاعری بھی ادبی حلقوں میں اپنا نام بنا لے گی،،…. طالب انصاری اس کی ضرورت کو سمجھ چکا تھا اور وہ ہر مرد کی ضرورت کو سمجھ چکی تھی…….،، نارسائ، ،….
اس کتاب میں اتنی سچائ ہے کہ جو لوگ اس کے اوراق میں زندہ اور موجود ہیں پتہ نہیں خود سے بھی نظر ملا پاتے ہیں یا نہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے انہوں نے اس کتاب کو اچھوت سمجھ کر خود سے دور رکھا ہو… لیکن ان کی دوری سے حقیقت تو نہیں بدلتی….نارسائ کے قرات کے بعد ہر وہ کردار میرے لئے قابل نفرت جن کی وجہ سے سارہ خودکشی پر مجبور ہوئ…
سارہ شگفتہ نے کئ شادیاں کیں…. کتنے لوگوں نے محبت کے دعوے کئے… سارہ روشن لوگوں روشن ذہن کے درمیان رہیں، لیکن ہر روشن چہرے درحقیقت کتنے تاریک ہر روشن ذہن گندگی سے بھرا…
مجھے ہمیشہ سارہ شگفتہ سے ایک انسیت رہی، امرتا پریتم کی ایک تھی سارہ پڑھ کر ہو یا کسی اور کی تحریر….. روبینہ فیصل کی نارسائ پڑھ کر میں سارہ شگفتہ کے دکھ میں ڈوب گئ…..
ہر بڑے لکھاری متفق ہیں،، نارسائ، ،اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے… بلا شک و شبہ….کسی کو اگر سارہ شگفتہ کی زندگی کے بارے میں جاننے کی طلب ہو تو یہ کتاب ان کی زندگی کی مکمل،، آپ بیتی،، ہے… اگر کوئ چاہتا ہے جانے دکھ کے کتنے رنگ تو یہ کتاب بہت اہم ہے…. اگر کوئ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت،، مسخ و بدلتے چہرے،، کی سچائ جاننا چاہتا ہے تو یہ ناول بیسٹ ہے…
بہت دعائیں روبینہ فیصل اور ان کے قلم کے لئے…

بنگلہ دیش سے جب اردو سے محبت کرنے والے آپ کے کام پر یوں لکھیں تو دل خوشی اور محبت سے بھر جاتا ہے ۔

شکریہ شبانہ

ناول : نارسائی ،،،….

مصنفہ… روبینہ فیصل

پبلیشر… سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

تعارف… شبانہ نوید

نارسائ شاعرہ سارہ شگفتہ کی زندگی پر مبنی ناول ہے…… اس سے پہلے بھی کئ کتابیں پڑھ چکی ہوں سارہ شگفتہ کی زندگی پر….. ان کتابوں کو پڑھ کر اس لئے مایوسی ہوئ کہ، زندگی سارہ شگفتہ کی تھی لیکن اسے برتا لکھنے والوں نے تھا…

روبینہ فیصل کے مشاہدات گہرے ہوتے ہیں، وہ کالم بھی لکھتی ہیں… کالم لکھنے کے لئے اپنے گردوپیش پرنظر رکھنی پڑتی ہے، تاکہ موضوع کے ساتھ انصاف کر سکیں.. مسائل سماجی، سیاسی جو بھی ہوں لکھنے کے لئے آگاہی کی ضرورت پڑتی ہے… روبینہ فیصل کے کالموں کا مجموعہ،، روٹی کھاتی مورتیاں،، گواہ ہیں…

کسی ذات پر قلم اٹھانے سے پہلے اس کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتیں جاننا بھی ضروری ہے… قلم کسی کا بھی ہو سکتا ہے لیکن شخصیت ایک مخصوص شخص کی ہوتی ہے…..

روبینہ فیصل عرصہ دراز سے کینیڈا میں مقیم ہیں…چاہے پاکستان ہو چاہے انڈیا ان کی ادبی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے، اس کے لئے انہیں ادبی محفلوں کی رونق ادبی اجتماع میں شمولیت کی ضرورت نہیں… کہتے ہیں،، ادب، ،وہ چھلنی ہے جو بے رحم ہے لیکن سچ ہے…

سارہ شگفتہ ایک زندہ حقیقت تھی، ایک حساس شاعرہ، اس کے اپنے خواب تھے….ایک ایسی عورت کی کہانی جو آسودہ نہیں تھی… خواب کو سچ کرنے اور اپنی نارسائ مٹانے کے لئے اس نے کئ دامن تھامے، لیکن سب کے سب بیکار… دکھ بڑھتے گئے……ابھی بھی ہمارے سماج میں جب عورت اونچے اونچے خواب دیکھتی ہے تو اسے تکمیل کے لئے مرد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے.. مرد جو اپنے ہی کسی خواب کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے. عورت اپنے خواب اپنے بل بوتے پر پورے کر سکتی ہے لیکن ہائے سماج کے چار لوگ، جن میں یکجہتی نہیں زمانے سے چار ہیں….

روبینہ فیصل نارسائ میں بے حد دلگیر انداز میں سارہ شگفتہ کے ساتھ چل رہی ہیں.. اس کے دکھ کی گٹھری اپنے سر پر اٹھائے دوسرے ہاتھ سے اس کی انگلی تھامے ہر نشیب و فراز، دکھ کی اتھاہ گہرائیوں سے گزر رہی ہیں…. اس لئے کتاب پڑھتے ہوئے کہیں یہ احساس نہیں ہوتا ہے،، آپ بیتی،، نہیں ہے، ایک دفعہ بھی روبینہ کے لئے تعریف کے الفاظ نہیں نکلتے،، کیا جان لیوا تحریر ہے،، بلکہ ایک آہ سی نکلتی ہے،، سارہ شگفتہ نے کتنی تکلیفیں اٹھاییں،،…..کتاب ختم کر کے سو چ میں پڑگئ،، روبینہ سارہ کی روح تک میں داخل ہو گئیں، کیسے؟

کسی اور کے دکھ، تکلیف کو زبان دینا مشکل ترین کام ہے…. روبینہ نے بہت مہارت سے اس دکھ کو قلم بند کیا ہوگا… کتنے آنسو گرے ہوں گے، کتنی راتیں بےچینی میں گزری ہوں گی، کتنے الفاظ بے مایہ لگے ہوں گے اس تکلیف کے سامنے….. قاری میرے جیسا قاری ہر سطر محتاط طریقے سے پڑھتا ہے.. کیونکہ روبینہ کی تحریر کے سامنے دل پر سے اپنا اختیار کھونے لگتا ہے… روبینہ جیسا چاہتی ہیں قاری اسی جذبات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے…….کم از کم میرے ساتھ ایسا ہی ہوا…

عورت اور مرد شائد کبھی سماج میں ایک طرح کا مقام نہ پا سکیں.. مرد بیک وقت چار بیویاں رکھ سکتا ہے عورت مختلف ادوار میں طلاق کے بعد وہ بھی اور شادیاں کر سکتی ہے… چار شادیوں پر مرد اور مذہبی

نارسائ کے ہر صفحے پر حقیقت کی تلخی گھلی ہوئ ہے.. کیسے کیسے اجلے روشن چہرے جسے زمانہ سمجھ رہا تھا دراصل کتنے مکروہ، کتنے گھناونے تھے…. ،، اب تک اس کے سامنے سب شاعروں، ادیبوں کے دو دو چہرے آچکے تھے. اب حیرت کا جنازہ مکمل طور پر اٹھ چکا تھا. وہ جان گئ تھی دنیا کی جس مخلوق کو وہ کھرا اور خالص سمجھا کرتی تھی وہ عام لوگوں سے بھی کہیں زیادہ دو رخے ہیں. ان کی منافقت کی تہیں اتنی گہری تھیں کہ انہیں اتارنے کی کوشش میں اکثر اس کا سانس پھول جایا کرتا تھا. اس لئے اب وہ بس سب کچھ دیکھتی، خذب کرتی اور خاموش رہا کرتی،،….،، نارسائ، ،،..

،، وہ سوچتی…،، یہ لوگ جتنے نمائشی اور بودے نکلے ہیں اسی حساب سے انہیں انہی کی سطع پر آکر ملنا چائیے،،.. حیرت کی بات تو یہ تھی کہ بڑے بڑے ادبی لوگوں کی سطع تک پہنچنے کے لئے اسے اتنا نیچے اترنا پڑاکہ وہ خود بھی پستی کے دلدل میں پھنستی چلی گئ. آف!! وہ بڑے بڑے ادبی نام. ادب کے چمکتے ہوئے ستارے…،،. ..،، نارسائ، ،

،،طالب انصاری جو بڑا نقاد اور شاعر تھا، اس کے جسم کے توسط سے اس کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ اس کوشش میں تھی کہ آج یہ نقاد فتح کر لیا تو کل کو اس کی شاعری بھی ادبی حلقوں میں اپنا نام بنا لے گی،،…. طالب انصاری اس کی ضرورت کو سمجھ چکا تھا اور وہ ہر مرد کی ضرورت کو سمجھ چکی تھی…….،، نارسائ، ،….

اس کتاب میں اتنی سچائ ہے کہ جو لوگ اس کے اوراق میں زندہ اور موجود ہیں پتہ نہیں خود سے بھی نظر ملا پاتے ہیں یا نہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے انہوں نے اس کتاب کو اچھوت سمجھ کر خود سے دور رکھا ہو… لیکن ان کی دوری سے حقیقت تو نہیں بدلتی….نارسائ کے قرات کے بعد ہر وہ کردار میرے لئے قابل نفرت جن کی وجہ سے سارہ خودکشی پر مجبور ہوئ…

سارہ شگفتہ نے کئ شادیاں کیں…. کتنے لوگوں نے محبت کے دعوے کئے… سارہ روشن لوگوں روشن ذہن کے درمیان رہیں، لیکن ہر روشن چہرے درحقیقت کتنے تاریک ہر روشن ذہن گندگی سے بھرا…

مجھے ہمیشہ سارہ شگفتہ سے ایک انسیت رہی، امرتا پریتم کی ایک تھی سارہ پڑھ کر ہو یا کسی اور کی تحریر….. روبینہ فیصل کی نارسائ پڑھ کر میں سارہ شگفتہ کے دکھ میں ڈوب گئ…..

ہر بڑے لکھاری متفق ہیں،، نارسائ، ،اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے… بلا شک و شبہ….کسی کو اگر سارہ شگفتہ کی زندگی کے بارے میں جاننے کی طلب ہو تو یہ کتاب ان کی زندگی کی مکمل،، آپ بیتی،، ہے… اگر کوئ چاہتا ہے جانے دکھ کے کتنے رنگ تو یہ کتاب بہت اہم ہے…. اگر کوئ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت،، مسخ و بدلتے چہرے،، کی سچائ جاننا چاہتا ہے تو یہ ناول بیسٹ ہے…

بہت دعائیں روبینہ فیصل اور ان کے قلم کے لئے…

 

 

 

” وہ ۔۔۔جس کی موت طبعی نہیں تھی۔ جس نے خودکُشی کی تھی ۔ خودکُشی؟ جو اس کے مذہب میں حرام ہے ۔ تو کیا مذہب واقعی حلال حرام کو طے کرنے والا عنصر تھا؟ کیا وہ مذہبی نہیں تھی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے خود سے پوچھا کہ اگر موت “مکمل ہار” ہے تو یہ ہار اسے نصیب کیوں نہیں ہوئی؟ کیا وہ موت کے معیار پر پوری نہیں اتری تھی؟ ۔۔۔۔۔۔۔”

” نارسائی ” سے کل ہی ملاقات ہوئی اور یہ مجھے اپنے ساتھ سفر پر لے نکلی ہے۔ اپنی اس تحریر کے آغاز میں اس روح کے چند اپنے سے ہی مکالمے تحریر کئے ہیں جو وہ اپنے جسم کے ٹکڑوں کو پاس بیٹھے ادا کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہماری ملاقات اگلے کسی اسٹیشن پر ہو گی۔ گاڑی ایک عورت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چل پڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول “نارسائی”

16/04/2025

ڈاکٹر سارہ علی، کینیڈا

سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب اور روبینہ دونوں کو مبارکباد ڈاکٹر صاحب جنہوں نے اتنی اچھی تقریب کا اہتمام کیا اور روبینہ جنہوں نے محنت اور عرق ریزی سے اتنی اچھی کتاب تحریر کی۔ لیکن میں اس کے علاوہ بھی ان کی شکر گزار ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی رہنمائی صبر تحمل اور کتابوں کے لیے شکریہ اور روبینہ کا اس تقریب میں شرکت اور ناول کا رویو لکھنے کی دعوت دینے کے لیے تو شکریہ ہے ہی لیکن ان سے مل کر میری ایک بہت ہی گرؤانڈڈ ادیب سے ملاقات ہوئی روبینہ سے ڈاکٹر صاحب کے توسط سے میرا غائبانہ تعارف تھا اور مجھے لگتا تھا کہ وہ ادیب ہیں فلمساز ہیں تو شاید مغرور ہوں گی لیکن جب آپ غلط ثابت ہوں تو اسے مان لینا چاہیے میری فیملی آف ہارٹ میں دوسری یا تیسری تقریب میں شرکت ہوگی میں دیر سے آئی تھی اور ہال میں داخل ہونے سے پہلے میں ہال وے میں کھڑی بہت نروس تھی کہ اندر جا کر اپنا مضمون پڑھوں یا نہ پڑھوں کہ ایک خاتون ہال سے نکلیں انہوں نے مجھے مسکرا کے سلام کیا اور کہا کہ تقریب شروع ہو گئی ہے آج جائیں میرے لیے کافی سرپرائزنگ تھا کیونکہ ٹورنٹو میں بھی اسلام آباد کے ادیبوں والا ماحول بہت عام ہے یہ خاتون روبینہ تھیں اور میرا روبینہ کی طرف perception بدل گیا کیونکہ میرے لیے اس ادیب کا احترام کرنا کافی مشکل ہے جو عام لوگوں سے بغیر غرور کے نہیں مل سکتا اس لیے روبینہ کو یہ بات یاد ہو یا نہ ہو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی اور ان کو انکار کرنا میرے لیے ناممکن تھا حالانکہ اس وقت میرا بیٹا بیمار تھا اور ڈاکٹر صاحب اور روبینہ کی آدھی بات مجھے سمجھ آ رہی تھی اور آدھی نہیں لیکن میں نے پھر بھی حامی بھر لی اور میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے حامی بھری کہ اتنی اچھی کتاب میں پڑھ پاتی اور اس کرائسس میں اس کتاب نے ایک اور روزن مجھ پر کھولا وہ میری اپنی تنگ نظری کا تھا کہ کلاس سٹرگل کی بات کرتے ہوئے ہم ادب میں کلاس سسٹم کی تفریق بھول جاتے ہیں کہ اگر امیر شاعری کرے تو واہ واہ کہ جی ہاورڈ کے پڑھے ہیں شاعری تو ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ لباس کا کلف اور خوشبو جملے اور شعر کی قبولیت آسان بناتا ہے لیکن ایک کم پڑھا لکھا شخص مزدور کسان اگر یہ جسارت کرے تو ہم ترقی پسند دانشور بھی اپنے کپڑے سمیٹ کر بیٹھتے ہیں کہ کہیں ہمارے کپڑے گندے نہ ہو جائیں ہمارا pseudo intellectualism ہمیں ہماری ”میں“ سے آگے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کلاس سسٹم ادب میں ادیب لفظ بیچتے ہیں غریب کی غربت بیچتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے اپنے برابر نہیں سمجھ سکتے کیونکہ علم کا غرور ہوتا ہے ان کے مطابق ادیب ہونے کے لیے بھی خاص کلاس ضرورت ہے اور یہ غریب کی بات کر رہے ہیں جس سے بات کرنا ان کی توہین ہے۔

میری نظر میں نارسائی اور روبینہ فیصل کے کے ساتھ اس سے بڑی نا انصافی کوئی اور نہیں کہ اس کو صرف اس تناظر میں دیکھا جائے کہ یہ ایک ادیبہ شاعرہ کی زندگی پر مبنی ناول ہے۔ اس طرح کی کہانی کو اپنے ناول کا مرکز بنانے کے لیے حساس دل و دماغ کی ضرورت ہے۔ اگر اس ناول کو آپ پاکستان کی کسی بھی باشعور عورت کو پڑھنے کے لیے دیں جس کو اس شاعرہ کے بارے میں کوئی علم نہ ہو تو وہ آپ کو بتائے گی کہ روبینہ نے عام پاکستانی عورت کے مسائل کو اپنی ہیروئن کی زندگی کے لینز سے پیش کیا ہے اور یہاں مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ کیونکہ میرا علم اور شوق مطالعہ ہمیشہ کلاس سٹرگل تک رہا ہے اس لیے مجھے ان شاعرہ کے بارے میں سوائے اس کے کہ وہ جدا طرز بیان کی شاعرہ تھیں ہندوستان میں مشہور اور پاکستان میں لعن طعن کا شکار تھیں اور جوانی میں خودکشی کرلی سے زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اس لیے اس ناول کے پہلے سو ڈیڑھ سو صفحے میں نے ہر قسم کے تعصب اور رنگ سے بے نیاز ہو کر پڑھے اور میرے رونگٹے کھڑے تھے جس کی دو وجوہات تھیں ایک میں خود جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہوں اور عورتوں خاص کر لوئر مڈل کلاس اور لوئر انکم کلاس کی خواتین کی زندگی کس قسم کے مظالم کا شکار ہوتی ہے میں اس سے واقف ہوں دوسرے میرے والد کی خواتین کے حقوق کے اور کلاس سسٹم کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے میرے گھر میں یہ سب باتیں ان کی گفتگو کا حصہ رہیں اور جس قسم کے ظلم کا سامنا اور معاشرتی اور ریاستی جبر کا سامنا ان خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ان کو انصاف دلانے کے سلسلے میں کرنا پڑتا ہے میں اس کی عینی شاہد ہوں۔ میرے علم میں ہے کہ یہ باتیں کافی لوگوں کو گراں گزریں گی اور ان کو ایک پروپیگنڈے کا حصہ قرار دیا جائے گا ان سب کے لیے عرض ہے کہ مختاراں مائی ہمارے ہی ملک کی ریسنٹ تاریخ کا حصہ ہیں اسی ناول کی ہیروئن کی طرح جنوبی پنجاب کے ایکُ پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں اجتماعی زیادتی کی پنچایت سے دی گی سزا کے بعد ان کے مجرموں کو سپریم کورٹ نے بری کر دیا لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کا خیال تھا کہ ان کو خود کشی کر لینی چاہیے حالانکہ وہ بے گناہ تھیں لیکن ان مردوں کے بارے میں جنہوں نے یہ درندگی کی کبھی کسی نے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا وہ جیل سے چھوٹے اور سینہ تان کر وہیں سے جینا شروع کیا جہاں پہ مختاراں کو انہوں نے درندگی کا نشانہ بنے یایا تھا لیکن آج تک مختاراں مائی کو ہراسمنٹ اور اس سوال کا سامنا ہے کہ اس سب کے بعد بھی وہ زندہ ہے اس نے خودکشی کیوں نہیں کی یا میں آپ کو اس ناول کی ہیروئن کی مانند کم سن ہندو لڑکیوں کی سندھ کی عدالتوں میں گونجتی چیخیں سناؤں جو وہاں کے انتہائی محترم پیر میاں مٹھو کے طفیل مسلمان کر کے ادھیڑ عمر مسلمان مردوں کے حوالے کر دی جاتی ہیں 14 15 سال کی بچی اور چالیس پچاس سال کے مرد جن کو ان کی مختلف خدمات کے صلے میں چائلڈ برائڈ سے نوازا جاتا ہے یا نو سال کی فاطمہ فاریو کے بارے میں بتاؤں جس کو رانی پور کے ادھیڑ عمر پیر اسد علی شاہ نے اپنے سب گھر والوں کی گھر میں موجودگی میں ایسے ریپ کیا جیسے روٹین ہو اور کچھ عرصے کی جیل اور عدالت کے بعد اس کمسن بچی کے ماں باپ پر دباؤ ڈال کر دیت قصاص کے تحت باہر آ کے اسی گدی پر تخت نشین ہو کر اپنے علاقے کے لوگوں میں فیض بانٹ رہا ہے۔ کافی صفحات کے بعد جب مجھے مختلف ادبی حوالوں سے اس ناول کے سلسلے ماضی میں جاتے محسوس ہوئے لیکن میرے لیے اس وقت تک ایک نیا در کھلا چکا تھا دروازوں کے پیچھے خواتین کے اوپر تشدد کی کہانی میں اس ناول میں پڑھ رہی تھی۔ جس سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا کہ یہ کہانی کسی کی اصل سٹوری ہے جس کو اس نے exaggerate کیا یا نہیں نہ ہی میں اس بحث میں پڑنا چاہتی ہوں کہ آپ اس خاتون کہ ساتھ sympathy رکھتے ہیں یا grudge۔ کیونکہ اس کو پڑھتا وقت میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ میرا دماغ ایک خالی سلیٹ کی مانند تھا اور اس ناول کی اور مصنفہ کی گواہی کی سچائی یہ ہے کہ میرے دماغ کو اور دل کو یہ سچ لگا۔ میں ایسی لاتعداد عورتوں کو جانتی ہوں جو ڈومیسٹک وائلنس کا شکار ہو کر مر گئیں۔ ملتان کی دو بچوں کی ماں بیس سالہ ثانیہ زہرا جن کو پنکھے سے لٹکا دیا گیا، حیدر آباد کی عینی بلیدی، خیبر پختوانخواہ کی صائمہ رضا، اسلام آباد کی نور مقدم، مری کی ماریہ، ایبٹ آباد کی ماریہ اقبال جب خواتین کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے تو یہ ایلیٹ کی بیگمات کی بات نہیں کی جا رہی ہوتی اسی نوے فیصد آبادی کی بات کی جا رہی ہوتی ہے جو غربت اور تعصب اور تشدد کا شکار ہے۔

روبینہ فیصل کی ہیروئن کم عمر ہے کم پڑھی لکھی ہے مفلوک الحال ہے ایک اجڑی ہوئی بیٹی بہن ماں ہے لیکن پھر بھی پڑھی لکھی سوڈو انٹلیکچول عورتوں سے بہتر ہے اس نے کسی مرد کے گناہ پر پردہ ڈال کر اپنا گھر نہیں بسایا اس نے اپنی بھانجی کے ساتھ بدکرداری کرتے ہوئے خاوند کے آگے اسی کی بیٹی پیش کی کہ خدا بھی زمین پر اتر آئے تو اس ہوس کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا حالانکہ ہمارے ہی اردگرد کتنی عورتیں ایسے مردوں کو برداشت کرتی ہیں جو انہی کی بیٹیوں کو نوچ رہے ہوتے ہیں ایک سو کالڈ عزت بچانے کے لیے یا جھوٹی تسلی کے لیے کہ ہم سہاگن ہیں وہ سہاگن جس کا سہاگ روزانہ اس کی کھوکھ اجاڑتا ہے۔ چائلڈ برائڈ اور میریٹل ریپ اور اس کے نفسیاتی اثرات پر لکھنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے جسمانی اثرات تو پھر بھی کچھ نہ کچھ معاشرے کو نظر آ جاتے ہیں لیکن نفسیاتی پہلوؤں پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اس ناول کی ہیروئن کی طرح ان خواتین کو جن آ گئے ہیں پاگل ہے نفسیاتی ہے کہہ کر پیروں کے مزید جنسی تشدد یا پاگل خانوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس طرح ان کی تذلیل کی گئی ہے ان کے بچپن کو کیسے روند دیا گیا ہے۔ بہت دفعہ ایسی کہانی اور لفظوں کو ٹون ڈاؤن کر کے معاشرے کے لیے قبل قبول بنانا ہوتا ہے لیکن اس ناول میں ایسا کہیں نہیں ہوا جو سچ جیسا تھا اس کو ویسے ہی بیان کر دیا گیا اور یہ بطور مصنف آپ کے لیے خطرناک ہوتا ہے کہ ادبی حلقوں اور معاشرے میں آپ کی اپنی acceptability کو threaten کرتا ہے خاص اگر اس ساری داستان میں کئی سو کالڈ بڑے ادیبوں کے نام بھی شامل ہوں۔ لیکن مجھے روبینہ اس ناول میں اس چیز سے بالکل بے پرواہ اور اپنی کہانی کی سچائی سے کمٹڈ نظر آئیں۔

روبینہ کی صرف کہانی پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ زبان پر بھی گرفت مضبوط ہے ہر وہ ادیب جو دکھوں اور تکلیفوں سے گھرے انسانوں کی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کر سکتا ہے اس کے لفظ اتنے ہی طاقتور ہوں گے اس ناول کے ہر صفحے پر ایک ایسی سطر یا ایسا پیراگراف ڈھونڈ سکتے ہیں جو سیدھا آپ کے دل میں اتر جائے لیکن کہانی بالکل سفاک حقائق کے ساتھ آنکھوں کے آگے زندہ نظر آتی ہے۔

اس ناول کی کہانی معاشرتی سچائی پر مبنی اور روبینہ کا مشاہدہ اپنے اطراف کی طرف بہت گہرا اور شفاف ہے میرے لیے اس کہانی کا بہت روانی سے پاکستان سے کینیڈا شفٹ ہو جانا دلچسپ تھا۔ کہانی کی روانی کو توڑے بغیر روبینہ نے ماضی سے حال اور تھرڈ ورلڈ سے فرسٹ ورلڈ کی عورت کی طرف اس کہانی کا رخ موڑا اور اس میں اہم یہ ہے وہ کسی inferiority complex کا شکار نہیں جیسے عموماً ہم دیسی ہوتے ہیں کہ کینیڈا میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور عورتوں کے کوئی مسائل نہیں۔ روبینہ کینیڈا میں بھی امیگرینٹ خواتین اور پاکستانی خواتین کے حالات اور مجبوریوں سے بھی آگاہ ہیں اور یہ کہ کینیڈا امیگریشن نے عورت کے حالات بدل دیے یا مرد کی پرسیپشن چینج کر دی ایسی کسی خوش گمانی کا شکار نہیں۔ یہاں بھی کلاس سسٹم منہ کھول کر کھڑا ہے اور وہی اکیلی عورت کا فائدہ اٹھانے کی سوچ بھی موجود ہے۔ یہ اختتام میرے لیے دلچسپ تھا لیکن ہارٹ بریکنگ بھی شاید ہر بیٹی کے لیے ہو جو سر اٹھا کر جینا چاہتی ہے

تجھے جب بھی کوئی دکھ دے

اس دکھ کا نام بیٹی رکھنا

سے ہم عورتوں نے ایک لمبا سفر طے کیا اور آج میں کہہ سکتی ہوں

انہوں نے مجھے خبردار کیا

کہ اگر تمھاری بیٹی ہوئی وہ تمھاری سزا ہوگی

لیکن وہ غلط تھے

وہ میری سزا نہیں

وہ میری جزا ہے

وہ میرے درد کا علاج ہے

وہ میرے جینے کا دوسرا موقع ہے

وہ دنیا کے لیے میری امید ہے

وہ میرا دل ہے جو آزاد ہے

وہ میری سزا نہیں

وہ میری جزا ہے

یہی دکھ اور سفر اس ناول کا سچ ہے اور روبینہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ یہ کڑوا سچ انہوں نے پوری ایمانداری کے ساتھ نارسائی میں بیان کیا اور اپنے حصے کا قرض ادا کر دیا۔

(یہ مضمون فیملی آف ہارٹ کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی نارسائی ناول تحریر کردہ روبینہ فیصل، 6 اپریل 2025 کو پڑھا گیا)

 

روبینہ فیصل کا یہ ناول ایک سوانح حیات ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اگر اِس دارِ فانی سے کوچ  کرنےکے بعد معلوم ہوکہ عالمِ برزخ کے دروازے بند ہیں، اور لاکھ کھٹکھٹانے  کے با وجود رسائی نہ ہو، تو وہ  اِس ناول کا عنوان  بن جاتا ہے، اور بے چاری بتول کو اِس  دشتِ جنوں کی طرف پلٹنا پڑتا ہے ،جس  سے بے وَقعَت ہو کر اُس نے  راہِ فرار اختیار کی تھی۔ یہ ناول، اس کی بے وقعتی کی کہانی ہے، اور بے وقعتی کی انتہا یہ ہےکہ 600 صفحات کے اس ناول میں بتول کا نام مشکل سے درجن بھر آیا ہوگا، اور وہ بھی آدھے راستے پر پہنچ کر   بتول سے سائرہ بن جاتی ہے۔

ایک مثالی ناول کے چار بنیادی اجزا ہوتے ہیں، یعنی  کردار، مناظر، مُکالمات اور تصادم ۔ میں نے نارسائی کا مطالعہ ان ہی چار اجزا کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ اس لحاظ سے نا رسائی ایک مثالی ناول ہے اور اس میں ان چاروں اجزا   کی آمیزش،  بڑی خوب صورتی سے کی گئی ہے۔

سب سے پہلے ہم کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ نارسائی میں تین قسم کے کردار ہیں: مرکزی کردار، معاون کردار اور مخالف کردار۔ بتول مرکزی کردار ہے جس کے گرد کہانی گھومتی ہے۔ وہ کہانی پر چھائی ہوئی ہے، اور پہلے صفحے سے آخری صفحے تک شاید ہی کوئی صفحہ ہو جس پر وہ موجود نہ ہو۔  کچھ معاوِن کردار ہیں جو بتول کے دوست ہیں اور اس کا  سہارا بنتے ہیں،  مگر انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ بتول کی دوستی بھی   خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اور پھر مخالف کردار ہیں  جو بتول کے ساتھ برسر پیکاررہتے  ہیں۔ یہ  کرداراتنے بدذات اور خبیث ہیں کہ  بتول پر ظلم کی انتہا کردیتے ہیں۔

بتول ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی جس میں بیٹی کی پیدائش پر صفِ ماتم بچھ جاتی ہے اور پورے خاندان کو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ  اُسےباکرہ کی حیثیت سے  سسرال  بھیجنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے ہوں گے۔ چناں چہ پورا خاندان اس کی عصمت کی حفاظت پر مامور ہوگیا اور جوں ہی  وہ تیرہ برس کی ہوئی، اسے نکاح کے عوض فروخت کردیا گیا۔ سسرال کا روایتی ظلم اس کی آنے والی زندگی کا حصہ بن گیا  اور وہ مرتے دم تک رسشتے بنانے، بگاڑنے ، ظلم سہنے، اور قبولیت کی تگ و دو کرنے میں لگی رہی۔  

جہاں تک نارسائی کی منظر کشی کا تعلق ہے تو مناظر اتنے vivid اور واضح ہیں  کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے  جیسے سب کچھ اس کے سامنے ہو رہا ہے اور وہ منظر کا حصہ ہے ، مثلاً پہلا منظر پورے باب پر پھیلا ہوا ہے  اور اتنا لرزہ خیز ہے  کہ میں نے جس روز یہ باب پڑھا اسی رات کو ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک خواب دیکھا جس کا مرکزی خیال وہی تھا جو میں نے پڑھا تھا اور میں ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

اب ہم آتے ہیں مکالمات کی جانب۔ نارسائی کے مکالمات انتہائی طاقت ور اور موثر ہیں۔ اُن میں الفاظ کا انتخاب اور بولنے کا انداز کردار کی عمر، تعلیمی سطح اور مزاج کے مطابق ہے، مثلاً کہانی کے ابتدائی حصے میں بتول کا ٹکراؤ ثناء اللہ کی ماں اور بہنوں کے ساتھ ہوتا  ہے جو ان پڑھ ہیں اور آگے چل کر ایسا ہی ٹکراؤ   جمال کی ماں اور بہنوں سے ہوتا ہے جو پڑھی لکھی ہیں۔دونوں مکالمات کا مواد یا content ایک ہی ہے مگر الفاظ کے انتخاب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیشترمکالمات  تصادمی یا confrontational ہیں  اور کئی کئی صفحات پر محیط ہیں۔ ان مکالمات میں  ہر جملے کی کاٹ ایسی ہے کہ پڑھتے وقت بے اختیار آپ کا دل چاہتا ہے کہ جھگڑے میں شامل ہوجائیں۔ عموماً ایسے مکالمات میں مصنف کے لیے غیر جانب دار رہنا مشکل ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایک جانب کے مکالمات بڑے جان دار ہوتے ہیں جب کہ  دوسری جانب کے پھس پھسے  ہوتے ہیں، مگر نارسائی کے مکالمات سے پتا نہیں چلتا کہ مصنف کا جھکاؤ کس کی طرف ہے کیوں کہ دونوں جانب کے دلائل کی کاٹ ایک ہی جیسی ہے۔

ناول کا ایک اہم  جز  تصادم ہوتا ہے جو مرکزی اور مخالف کرداروں کے درمیان کوئی مسئلہ، قَضیّہ، تنازع  یا  Conflict  ہوتا ہے   ۔ تخلیقی  تحریر (Creative Writing) کی کلاس  میں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ تصادم کے بغیر ناول مکمل نہیں ہوتا۔    عموماً ناول کی ابتدا کرداروں  کے تعارف سے ہوتی ہے اور  اُس کے بعد تصادم یا مسئلہ کہانی میں داخل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے مسئلہ  گمبھیر ہوتا جاتا ہے اور ہوتے ہوتے  نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ  حل کی جانب بڑھتا ہے اور ناول کے اختتام تک وہ مسئلہ حل ہوجاتا  ہےاور اس کا نتیجہ یا تو ہار جیت کی شکل میں نکلتا ہے  ،یا پھر معافی تلافی ہوجاتی ہے اور  Everyone lives happily ever after!، مگر نارسائی  میں تصادم  ختم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہی جاتا ہے  اور آخری صفحے تک قائم رہتا ہے ۔ روبینہ تصادم کے نتیجے میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ  کو اپنی آخری سرحدوں تک لے گئی ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ ناول لکھتے ہوئے ضرور دیوانگی کی سرحدوں کو چھوا  ہوگا مگر یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ صحیح سلامت واپسی کیسے ممکن  ہوئی۔  میرے ذہن سے  تو”وہ“  جونک کی طرح چمٹ گئی ہے، مگر یہی تواُس  کی قوت ہے کہ وہ جس پر حملہ آور ہوتی ہے، خود تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے بھی تباہ کردیتی ہے۔ اس کا شکار اس کے دوست ہی ہوتے ہیں  اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔ میرے ذہن میں بہت سے سوال کُلبلائے، مثلاً  کیا وہ اپنے دوستوں کے گھر بگاڑ کر اُن سے اُس ظلم کا انتقام لے رہی ہے جو اُس کے مخالف کرداروں نے اُس پر ڈھایا ہے؟ کیا وہ اذیت پسند ہے،  جسے ظلم سہنے سے لذت ملتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب تو کوئی ماہر نفسیات ہی دے سکتاہے۔   بہرحال  کہانی کی ابتدا میں وہ مظلوم کی حیثیت سے ابھرتی ہے مگر آگے چل  کر وہ اپنے دوستوں کو بھی اپنی مظلومیت میں حصہ دار بنالیتی ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے  کہ وہ خود شکن شخصیت (Self-Destructive Personality) کی مالک ہے اور جانتے بوجھتے گڑھوں میں گرتی پھرتی ہے، اور اپنے دوستوں کو بھی کھینچ کر  اپنے ساتھ  لے جاتی ہے۔

اگرچہ ناول لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے مگر مختصر کہانی کے مقابلے میں چوں کہ ناول میں الفاظ کی تعداد کی کوئی قید نہیں، لہٰذا ناول نگار کو  کہانی،  بیانیہ اور کرداروں  کو پھیلانے اور ان میں  پیچیدگی پیدا کرنے کی آزادی ہوتی ہے    ۔  عموماً کردار جتنے پیچیدہ ہوں اور کہانی جتنی گُنجلَک ہو، ناول اُتنا ہی دل چسپ سمجھا جاتا ہے۔ روبینہ نے 600 صفحات کو بڑی فراخ دلی سے استعمال کیا ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک کردار کی تخلیق کی ہے جن سے قاری کی جذباتی وابستگی ہوجاتی ہے، مثلاً  جب میں ثناء اللہ اور سرمد کا موازنہ کرتا ہوں، تو دونوں ہی منفی کردار ہیں جو  بتول کو نقصان پہنچاتے ہیں، مگر مجھے ثناء اللہ سے نفرت  جب کہ سرمد سے ہم دردی  ہوجاتی ہے۔ رہی بتول، تو وہ  نفسیات کے طلبہ کے لیے ایک دل چسپ کیس اسٹڈی ہے۔

اب ایک نظر نارسائی کی زبان اور اسلوب پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ وہ زمانہ ختم ہوگیا جب نثر مقفیٰ اور مسجع ہوا کرتی تھی۔اب سادہ زبان لکھی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھ سکیں۔ انگریزی فکشن میں ایک مکتبۂ فکر کے یہاں باقاعدہ  ناول کے قابل فہم ہونے یا Readability کا ایک  معیار ہے اور وہ یہ  کہ آپ کی تحریر اُس قاری کی سمجھ میں  آسکے جس کی تعلیم ہائی اسکول تک ہو۔ اگر آپ انگریزی لکھتے ہوئے گرامرلی (Grammarly) استعمال کرتے ہیں تو جہاں آپ کوئی مشکل لفظ استعمال کریں تو گرامرلی اعتراض لرتا ہے کہ اس لفظ کو تو  صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ Readabiliy کے پیمانے پر نارسائی کو دیکھیں تو اس کی زبان قابل فہم ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں اور سادہ الفاظ ہیں۔  دوسرے مکتبۂ فکر  کا کہنا ہے کہ زبان کی سادگی معانی کی گہرائی  پراثر انداز ہوتی ہے لہٰذا نفیس خیالات کو سادہ زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔  روبینہ نے تحریر کی نفاست  اور معانی کی گہرائی کو برقرار رکھنے کے لیے استِعارے اور تشبیہات  استعمال کی ہیں، مثلاً

”اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کی ملکیت نہیں تھی، بس ایک کھلی قبر تھی جہاں وہ سب مرد اپنے اپنے دکھ دفنانے آتے تھے ، اور پھر اس پر پانی چھڑک کر اُس کی مٹی کو وقتی طور پر تر کرکے چلے جایا کرتے تھے۔ “  

”جو آنکھیں اُڑ جاتی ہیں ، وہ بھی تو کہیں رہ رہی ہوتی ہیں۔ تو میری آنکھیں تم میں رہ رہی ہیں۔“

پوری کتاب ایسے پھڑکتے ہوئے جملوں سے بھری پڑی ہے۔

بڑے عرصے کے بعد ایک اچھا ناول  پڑھنے کا موقع ملا، جس کے لیے روبینہ فیصل مبارک باد کی مستحق ہیں۔ اس ناول کی کہانی عرصے تک یاد رہے گی کیوں کہ بتول کا کردار ایک ایسی بازگشت چھوڑ جاتا ہے جو عرصہ تک قاری کے ذہن میں گونجتی رہتی ہے۔ ہم سب کی زندگی میں ایسے کردار آتے  ہیں جو اپنی کشش سے ہماری زندگی  پر حاوی ہو کر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ شاید بعض رشتے نارسائی کے حصار میں قید رہ کر ہی اپنی اصل صورت میں برقرار رہتے ہیں۔ایک ایسی عورت جو خود کو مظلوم سمجھتی رہی، مگر درحقیقت کیا وہ واقعی مظلوم تھی یا وہ ظلم کو دعوت دیتی رہی؟ یہ فیصلہ  روبینہ نے قاری پر چھوڑ دیا  ہے