پیدائش تراسی کی، کارکن انیس سو بانوے کا۔۔اور قیدی نمبر آٹھ سو چار

images

پیدائش تراسی کی، کارکن انیس سو بانوے کا۔۔
اور قیدی نمبر آٹھ سو چار
تحریر:روبینہ فیصل
تاریخ: 14/02/2024
ظل ِ شاہ (علی بلال) پنجاب کی لوک داستانوں کا ایک ایسا کردار بن گیا ہے جسے آنے والا وقت ماؤں کی لوریوں اور دادیوں کی کہانیوں میں زندہ رکھے گا۔ وہ عشق اور قربانی کی ایسی داستان رقم کر گیا ہے کہ لاہور (پنجاب) کی آنکھوں نے اس دور ِ جدید میں منافقت اور مفادات کی بہتی نہروں میں ایسی انوکھی داستان نہ سنی ہو گی۔
میں وہ داستان سن نہیں بلکہ دیکھ رہی تھی ، میں ظل ِ شاہ کو دیکھ رہی تھی۔۔
وہ خواب نہیں لگتا تھا،ہاں وہ سچ میں حقیقت ہی ہو گا ورنہ ایک ایک جُز کے ساتھ میری یاداشت میں اتنا واضح کیسے ہو تا ۔
تیرہ فروری کی رات کو وہ، اپنی قلندرانہ شان کے ساتھ، لاہور کی محبت میں گرفتار ایک ہجر زادی سے اس کی بند آنکھوں کے پیچھے،خواب کے دروازے سے گزر کر اسے ملنے آیا تھا۔۔اور اسی ازلی معصومیت سے بتا رہاتھا جو اس کے چہرے کا خاصہ تھی؛
میں تراسی میں پیدا ہوا تھا، بانوے سے خان کا کارکن تھا، اور پھر آٹھ مارچ بیس تئیس کو میں مقتول ہوگیا ۔ کیا کہیں کوئی میلہ لگے گا؟
میں نے نظر اٹھا کر دیکھا ظل ِ شاہ خون میں لت پت میرے سامنے کھڑا تھا، اس نے ایک ہاتھ میں اپنی مسخ شدہ کھوپڑی اٹھا رکھی تھی، دوسرے ہاتھ میں اس کے مسلے ہوئے، کچلے ہوئے نازک اعضاء تھے۔مگر یوں لگ رہا تھا جیسے اسے اس سب کی کوئی تکلیف نہیں
وہ کہہ رہا تھا، نواز شریف کس منہ سے پاکستان آئے گا، اسے شرم نہیں آتی۔۔
میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ نواز شریف کو شرم نہیں آتی۔اس کے پو رے خاندان کونہیں آتی۔پاکستان ان کی من پسند غذا ہے، جب دل کرتا ہے کھاتے ہیں جب دل کرتا ہے اس کے خلاف نفرت اگلتے ہیں، پھر کھاتے ہیں پھر اگلتے ہیں اور بس چار دہائیوں سے بے شرمی سے اگلنے نگلنے کا سلسلہ جاری ہے۔۔
ظلے مجھ سے سوال کررہا تھا کیا الیکشن میں وہ سب سچ ہوا جو میں کہتا تھا کہ میں تو مر جاوں گا، مگر میرا ووٹ ڈال آئیں گے یہ بے شرم لوگ دھاندلی کریں گے۔۔ تو کیا دھاندلی ہو گئی؟
میں نے کہا؛تم جب مرے تھے تب تک پاکستان میں دھاندلی ہی کا رواج تھا، تمہارے قتل کے بعد دھاندلی دھاندلے میں، اور
بے غیرتی ڈھٹائی میں بدل گئی ہے۔۔ تمہارے خان نے جیل کے ننگے فرش پر بیٹھ کر وردی،، ہتھیاروں والے اور محلوں والے سب مافیاز کو، پوری دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے۔ مگر تم ٹھیک کہا کرتے تھے۔۔ او بے شرمو۔۔ شرم کرو۔۔ مگر ظلے ان بے شرموں کو شرم نہیں آتی۔۔ تمہارا خان جیت گیا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جیت گیا ہے۔۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جبر کی، جھوٹ کی، مکاری کی،رسی ابھی بھی تمہارے ملک میں دراز ہے۔۔
ظلے کا خون آلود چہرہ غصے اور غم سے کانپنے لگا،وہ بولا؛ مجھے جب پولیس والے مار رہے تھے میں نہیں رویا تھا، میں بس یہی کہتا جارہا تھا، عمران خان آئی لو یو۔ وہ مجھے اور مارتے تھے، میرا سارا جسم زخمی ہو گیا تھا، مگر میں پھر بھی نہیں رویا تھا، مجھے تکلیف نہیں ہو رہی تھی مگر آپامجھے اب تکلیف ہو رہی ہے۔۔ بہت زیادہ۔۔
میں اس کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو گئی۔۔ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھا۔۔
وہاں ایک ندی بہہ رہی تھی،اس کا پانی بہت زیادہ نیلا اور آئینے کی طرح شفاف تھا،گھاس اتنی ہری کہ اس کا ہرا پن ظلے کی آنکھوں میں جھلک رہا تھا ۔ فضائیں خوشبو سے معطر ہو سکتی تھیں مگر ظلے کے ہاتھوں میں اٹھائے کچلے اعضا کی سڑاند ایسا ہو نے نہیں دے رہی تھی۔
میں ایک قدم اس کی طرف بڑھی ہی تھی کہ وہ دس قدم پیچھے ہٹ گیا اور اس کے پیچھے جاتے ہو ئے ہر قدم کے ساتھ ایک چیخ سنائی دے رہی تھی۔ وہ چیخ ظلے کے منہ سے نہیں نکل رہی تھی وہ بہت سارے ایسے بچوں کے منہ سے نکل ر ہی تھی جنہیں ابھی ظلے شاہ کے ملک میں مر نے کے لئے پیدا ہونا تھا۔ وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔وہ مجھے صرف ایک چیخ کی صورت سنائی دے رہے تھے۔
ظلے کہہ رہا تھا؛
مجھے خان سے محبت تھی ابھی بھی ہے۔ میں خان کے لئے، اپنے کپتان کے لئے کیا کر سکا؟ کچھ بھی نہیں مگر اس کی وجہ سے مجھے زمان پارک میں بہت محبتیں ملیں۔ میں روزانہ خان کے آستانے پر پہنچتا تھا، جہاں وہ کرکٹ کھیل کر بڑا ہوا، پھر وہیں سے اس نے غریبوں کے لئے شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا، یونیورسٹی بنائی، وہ میرا خان بڑا پیارا ہے۔۔میں اس کی حفاظت کے لئے امی ابو کو ناراض کر کے آتا تھا۔۔میں اس کی حفاظت نہیں کر سکا۔یہ کہتے ہو ئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ اس کی رونے کی آواز ان بے چہرہ چیخوں کے ساتھ مل گئی جن چہروں کو ابھی اسی کے ملک میں مسخ ہونے کے لئے پیدا ہونا تھا۔
میں نے کہا؛ظلے میں تمہیں چھو کر یہ یقین کرنا چاہتی ہوں کہ تمہاری عمران خان کے لئے محبت ایک خواب نہیں ہے، حقیقت ہے۔
ظلے اسی معصوم انداز میں مسکرایا، پھراس نے قلندرانہ شان سے ایک قہقہہ لگایا۔۔ آئی لو یو عمران خان۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے غائب ہو گئے۔ محبت، آسمان پر چمکنے والے مہتاب کی طرح اس کی آنکھوں میں در آئی تھی۔
آپا! میری محبت حقیقت تھی، اسے نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے، بے شرم رانا ثنا اللہ نے، آئی جی پنجاب عثمان انور نے فسانہ بنا نے کی کوشش کی،مگر میں محبت کر نے والوں کے دلوں میں خون بن کر دوڑوں گا۔ میرے کپتان کو، میری جان کو قیدی آٹھ سو چار بنا دیا، میں اس کا بناوے کا کارکن، تراسی کی تاریخ پیدائش۔۔۔۔ اور وہ قیدی آٹھ سو چار۔۔اور اس کے لئے میری محبتیں مر کر بھی بے شمار بے شمار۔
ظل ِ شاہ۔۔۔ ظلے۔۔۔ علی بلال۔۔۔ وہ اوجھل ہو رہا تھا، وہ مٹ رہا تھا، مدہم ہو رہا تھا۔۔ میں اس کے ہیولے کو پکڑنا چاہتی تھی،میرا جسم منجمند ہوگیا ہے۔۔ سلیپ پیرالیسسز۔۔دماغ جاگ گیا جسم سو رہا تھا۔ مکمل بیدار ہوتے ہی میں لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھ گئی اور لکھنا شروع کردیا۔۔۔ یہ مرشد اور مرید کے عشق لازوال کی، قربانی کی، مٹی سے محبت کی انمول کہانی ہے۔۔
25 مارچ 2023کو پی ٹی آئی کے جلسے میں یہ گیت ظل شاہ شہید کی نذر کیا گیا تھا۔۔
تیری مٹی میں مل جاواں
گُل بن کے میں کھِل جاواں
تیری ندیوں میں بہہ جاواں
تیری فصلوں میں لہراواں
اتنی سی ہے دل کی آرزو
ماں تو کہتی تھی تیرا چاند ہوں میں
اور چاند ہمیشہ رہتا ہے۔۔۔
ضل ِ شاہ کی محبت کا چاند جو اس نے اپنے لیڈر سے کی، اپنے وطن سے کی ہمیشہ تاریکی سے لکھی گئی ظلم و ستم کی سیاہ رات میں چمکتا رہے گا۔
اور یہی چراغ ہیں جو جلتے رہیں گے اور ظالموں جابروں کے سینوں اور چہروں کو مذید سیاہ کرتے رہیں گے