بابا!
میں جانتا ہوں آپ دنیا سے میری رہائی کے بعد بھی ابھی تک قید میں ہیں۔ بابا میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مگر میں جب سے یہاں آیا ہوں تب سے ایک کرب میں مبتلا ہوں اور اس کی وجہ آپ کا ایک جھوٹ ہے۔اور مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ وہ جھوٹ نہ صرف آپ مجھ سے بولتے رہے بلکہ خود سے بھی بولتے رہے اور حد تو یہ ہے کہ وہی سنگین جھوٹ میرے مرنے کے بعد چاچو ایک بہت بڑے منہ والے اینکر کو انٹرویو دیتے ہو ئے بھی بول رہے تھے۔ یہ وہی اینکر ہے جس کے نام کے ساتھ آپ کے مرشد کی طرح” خان”لگا ہوا تھا مگرپھر بھی آپ کو یہ بالکل پسند نہیں ہوا کرتا تھا۔ اور اسے دیکھ کر آپ کہا کرتے تھے لازمی نہیں ہر خان غیرت مند اور خوددار ہی ہو۔
بابا! میں آپ سے بہت محبت کرتا تھا اور ابھی بھی کرتا ہوں مگر آپ کے بولے ہو ئے جھوٹ کی وجہ سے میری موت ہو ئی ہے یہ میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا، جب میں آپ کو یہ بتا چکوں گا کہ مجھے یہاں کن بچوں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔۔ میں چاہتا ہوں اس خط کو سب مکمل
تو جہ سے اور آخیر تک پڑھیں اس لئے میں کہہ رہا کہ” میں آگے چل کر بتاؤں گا “اوریہ سمارٹ جملہ میں نے مشہور ویلاگرز سے سیکھا تھا۔
بابا! سوشل میڈیا کی طاقت پر آپ لوگوں کو بہت یقین تھا، مگر دیکھئیے یہ مجھے نہیں بچا سکا۔سوشل میڈیا تو ان لوگوں کو بھی نہیں بچا سکا جن کے لائکس اور فالورزلاکھوں میں تھے۔بابا! جیسے میں آپ کی” جان کا طوطا تھا” ویسے ہی یہ سوشل میڈیا طاقتوروں کی جان کا طوطا ہے اور ہم سب صرف اور صرف ان کا چارہ ہیں ۔
بابا! میں یہاں بیٹھ کر اس آٹھ سال کی عمر میں بھی وہ دیکھ سکتا ہوں جو آپ زمین پر اسی سال تک بھی پاکستان جیسے ملک میں جیتے رہیں گے اور نہیں دیکھ پائیں گے۔
بابا!اگر آپ نے مجھ سے “وہ جھوٹ “نہ بولا ہوتا تو شائد میں حیرت کی موت مرنے سے بچ جاتا۔
بابا! کیا میں آپ کواب بتادوں کہ مجھے یہاں کن بچوں کے ساتھ رکھا گیا ہے؟
بابا! اس سے پہلے میں آپ کو یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ جب میں کومے میں چلا گیا تھا اور آپ مجھ سے ملنے آئے تھے۔
بابا،میرا جسم ہل نہیں سکتا تھا، مگر میرے کان مکمل جسم بن کر آپ کی آواز سن رہے تھے اورجب آپ کے زخمی ہونٹ میرا نام پکارتے تھے تو میں مزید صدمے میں غرق ہوتا جارہا تھا کہ آپ کو کون مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے۔ اور میں اتنا کمزور ہوں کہ اپنی ہی آنکھیں نہیں کھول پا رہا۔بابا! کیونکہ انہی آنکھوں کے سامنے پاکستانی پو لیس آپ کو گھسیٹتے ہو ئے لے گئی تھی۔۔ میرا بابا میراسپر مین وہیں پر مر گیا۔
اس منظر نے میرے جسم سے روح اسی دن کھینچ لی تھی۔۔ اوررفتہ رفتہ میرے جسم نے میرے دماغ کے احکامات سننے چھوڑ دئیے تھے۔
بابا! اس کے بعد انہی وردی والوں،نے پھر سے ہمارے گھر کی دیواریں پھاندیں اور ہم چاروں جو آپ کے بعد ماما اور دادی کی گود میں چھپے ہو ئے تھے، ان گودوں کو بھی ہم سے چھین کر گھسیٹتے ہو ئے لے گئے۔ بابا! دادی ایک دن بعد واپس آگئی تھیں مگر ماما کو تین دن بعدآئی تھیں۔۔
بابا! میں حیران تھا، اور اب بھی ہو ں اور میں یہاں پہلے سے موجود بچوں سے پو چھتا ہو ں کہ کیا ایسا واقعہ ان لوگوں کی زندگی میں بھی ہوا ہے۔ بابا! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے کن بچوں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔۔ بابا! یہ سب وہ بچے ہیں جن کو قابض یا دشمن ممالک کی فوجوں نے اس لئے بے دردی سے قتل کردیاتھا تاکہ وہ مفتوح، غلام یا دشمن کی نسلیں ہی ختم کردیں۔۔
بابا! جب میں نے خودکو ان بچوں کے درمیان پایا تو مجھے سب سے زیادہ غصہ ہی اسی بات پر آیا کہ آپ نے مجھ سے، میرے بھائیوں سے، اور سب سے بڑھ کر خود سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا؟ بابا، میرے پیارے بابا!اگر میں سچ جانتا ہوتا تو یقین جانئیے میں ایسی غفلت کی موت کبھی نہ مرتا۔آپ جانتے ہیں میرے ساتھ جن ملکوں کے بچے ہیں، میں ان کا نام یہاں نہیں لکھ سکتا۔ اس لئے نہیں کہ پابند ہوں بلکہ اس لئے کہ آپ دنیا والے آزاد نہیں ہیں، ان ملکوں کا نام لکھ دیا تو آپ یہ خط سوشل میڈیا پر نہیں لگا سکیں گے۔
بابا! آپ کی دنیا،صرف ان کے لئے آزاد ہے جنہیں غلام یا غریب ملک کے بچوں کو مارنے کی آزادی ہے۔
بابا! جن کے بچوں کے چہروں پر، آنکھوں پر، سینوں پر گولیاں چلا ئی جاتی ہیں، ان ممالک کا نام آپ آزادی سے سوشل میڈیا پر نہیں لکھ سکتے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں نا؟۔۔لہذا میں آپ کو یہی بتا سکتا ہوں کہ میں ایسے ہی غلام ملکوں کے مارے جانے والے بچوں کے ساتھ رکھا گیا ہوں۔ اور یہی آپ کا جھوٹ تھا۔۔ جو آپ مجھ سے اور خود سے بولتے رہے حتی کہ میرے مر نے،بلکہ میرے مارے جانے کے بعد بھی چاچو اس اینکر سے بولتے رہے کہ؛” ہماری فوج ہماری شان ہے، اور انہی کی وجہ سے ہماری، عزت، مال اور جان محفوظ ہے”۔
بابا! آپ لوگ یہ جھوٹ نہ بولتے تو شائدمیں آج زندہ ہو تا، کیونکہ میں اس صدمے سے محفوظ رہتا جو مجھے اس انکشاف سے ملا ہے کہ میں جس ملک میں تھا وہ میرا تھا ہی نہیں وہ ایک ایسی فوج کا تھا جس کے ہم دشمن تھے۔ جیسے امریکہ، اسرائیل، انڈیا (میں ان کے نام لکھ سکتا ہوں لیکن جن ممالک کے بچوں کو انہوں نے ماؤں کے پیٹوں میں بھی مار ڈالا ہے ا ن کا میں نام نہیں لکھ سکتا کیونکہ۔۔۔ آ پ جانتے ہیں۔۔اور پھر بھی سوشل میڈیا کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں)۔۔
بابا!جب میں ایک غلام ملک میں دشمن فوج میں رہ رہا تھا تو آپ نے مجھے یہ کیوں کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے۔
بابا! خدا کے واسطے اب میرے باقی بچے کھچے بھائیوں کو سچ بتا دیں ورنہ آپ بے خبری میں مارے جانے والوں کے کتنے جنازے اٹھائیں گے۔؟
بابا!بس ایک بات ہے یہاں رہنے والے باقی بچوں کے سینوں پر، آنکھوں پر، چہروں پر بہت زخم ہیں۔۔ اس طرح دیکھوں تو میں ان سے بہتر حالت میں مرا ہو ں، اس بات پر ایک دن میں شکر ادا کرنا چاہتا تھا مگر باباجب میں نے اپنی روح پر لگے زخم دیکھے تو وہ، اُس جھوٹ کی وجہ سے ان کے جسموں اور چہروں پر لگے زخموں سے کہیں زیادہ نکلے۔۔
اور بابا جب میں نے ایک دن ایک ایسے مقام پر آپ کے پسندیدہ ترین صحافی ارشد شریف کو دیکھا، جہاں دشمن فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے جوان لوگ رہتے ہیں تو میں دنگ رہ گیا کیونکہ ان کے جسم اور چہرے پر زخموں کے نشا ن کسی طور ایسے نہیں تھے جو اپنوں کے ہاتھوں غفلت میں مارے جانے والوں پر ہو تے ہیں۔ ان کا جسم واضح طور پر دشمن فوج کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی گواہی دے رہا تھا۔۔ بابا! اسی جگہ ایک کونے پر میں نے ظل ِ شاہ کو بھی دیکھا۔ مجھے یاد آیا اس کی موت (جسے آپ شہادت کہتے تھے) پر بہت روئے تھے۔ اس کا جسم بھی وہاں رہنے والوں کے جسموں سے مکمل مشابہ تھا۔۔۔دشمنوں کے ڈھائے گئے ظلموں کی عکاسی کرتا ہوا۔۔
بابا! ارشد شریف بہت ذہین اور پڑھا لکھا انسان تھا، ظل ِ شاہ ایک سائیں تھا، مگر آپ کو بھی یہ سن کر حیرت ہو گی کہ یہاں اس مقام پر ان دونوں کے چہرے سے بالکل ایک ہی جیسی حیرت عیاں تھی۔۔وہی کنفیوژن، وہی پریشانی،جو وہاں موجود اور کسی مارے جانے والے کے چہرے پر نظر نہیں آتی کیونکہ باقی سب جانتے ہیں کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، وہ دشمن جو ان کے بچوں کو اس لئے مارتے ہیں کہ ان کی نسلیں صفحہ ہستی سے مٹا سکیں۔۔ مگر یہ وضاحت، یہ سچ، نہ میرا نصیب تھا اور نہ ان دونوں کا۔۔
بابا! نو مئی کے بعد میں آپ کو گھر کی دیواروں میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا تھک گیا تھا،۔۔”عمار! بابا آگئے ہیں۔۔ سے عمار! بابا جلدی آجائیں گے” تک کا سفر میں نے چند دنوں میں طے کیا اور آپ کے ہر جھوٹ سے آزاد ہو کر اب آزاد فضاؤں میں ہوں۔ یہاں مجھے سوچنے بولنے اور دیکھنے کی آزادی ہے۔ میں چاہتا ہوں یہی آزادی آپ لوگوں کو خاص کر کے میرے بھائیوں کو زمین پر ہی مل جائے۔۔۔
بابا! یہ سب ہو جائے تو کم از کم ہم اس غفلت کی موت سے بچ جائیں گے جو ایسے محافظوں کی حفاظت کو سچ جاننے کی پاداش میں ہمارا نصیب بنتی ہے۔۔
بابا! جب مجھے قبر میں اتارا جارہا تھا تب بھی آپ کے ہاتھ میرے جسم تک نہیں پہنچنے دئیے گئے تھے۔ بابا! میرا جسم آپ کے لمس کو ترستا ہوا آپ کی دنیا سے چلا گیا۔ چاچو نے پھر کیسے کہہ دیا کہ پاک فوج ہماری آن بان شان ہے ان کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیند سوتے ہیں ۔۔ بابا! ان کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں سکون سے نہیں سوتے بلکہ قبرو ں میں اترتے ہیں وہ بھی باپ کے شفیق ہاتھوں کے بغیر۔۔ بابا! میں مصلحت اور خوف سے پرے کھڑا ہوں۔ آزادی کے نام پر بولے جانے والے جھوٹ سے بہت دور، آپ کی دنیا کے آزادی رائے اور انسانی حقوق کی منافقتوں سے دور۔۔جبر کی فضا سے بہت دور۔۔اس لئے بے خوف ہوں۔ مجھے معاف کر دیجئے گا۔
بابا! اپنی جان کے طوطے کو طوطا چشم نہ سمجھ لیجیئے گا، میں آپ کی محبتوں کا مقروض رہوں گا۔ مگر میں چاہتا ہوں آپ،میرے بھائیوں سے وہ جھوٹ نہ بولیں جسے آپ خود بھی سچ ہی سمجھتے تھے کہ “یہ ملک ہمارا ہے اور فوج ہماری جان، مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہے”۔
بابا!میں نے سالار بھائی کے ساتھ فٹ بال کلب میں داخلہ لینا تھا مگر وہ میری قبر پر بیٹھا کہہ رہا تھا کہ اب وہ بھی فٹ بال نہیں کھیلے گا۔
بابا! پلیز اسے کہیں فٹ بال ضرور کھیلے، سب کچھ کھیلے سب کچھ کرے مگر سچ جان کے۔۔۔ ورنہ یہاں آکر جب اسے بھی ایسے بچوں کے ساتھ رکھا جائے گا جو دشمن کی فوج کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں تو اسے میری طرح آپ کے جھوٹ سے نفرت ہو جائے گی۔
ماما کو، دادا، دادی کو، میرے بھائیوں کو، کزنز کو، چاچو کو،میرے دوستو ں کو، کلاس ٹیچر کو جنہوں نے سب کو بتا یا تھا کہ میں ٹسٹ پیپر پر” بابا بابا”
لکھتا رہا ہو ں۔۔ ان سب کو میرا اور ان کا سچ بتا کر میرا سلام اورپیار دینا۔
آپ کی جان کا طوطا
آپ کا پیارا بیٹا عمار جو آپ کے بغیر ابھی بھی تڑپ رہا ہے۔