:انکل سام کے نام خط میں منٹو لکھتا ہے
انکل سام زمیندار اخبار خرید لو پھرجو آپ کہیں گے وہ وہی چھاپا کرے گا ۔”
منٹو کے انکل سام کے نام خطوط اس کی سیاسی بصیرت کا پتہ دیتے ہیں ۔ وہ بصیرت اور کامن سینس جو چار کتابیں پڑھنے سے بھی نہیں آتی ، بلکہ یہ خدا کی ایک خاص دین ہو تی ہے ۔ منٹو اس تحفے سے مالا مال تھا ۔ اس زمانے اس کے امریکہ کے نام لکھے گئے خطوط پڑھیں تو آج کے پاکستان کی تصویر سمجھنا کچھ خاص مشکل نہیں رہے گا ۔مگر آجکل پڑھنے کا وقت کسی کے پاس نہیں اور جو ایک کتاب بلکہ کسی کتا ب کا دیباچہ ہی پڑھ لیتا ہے وہ ہر بحث شروع ہونے سے پہلے دوسرے کو کہتا ہے تم نے پڑھا ہی کیا ہے جاو پہلے کچھ پڑھ تو لو ۔۔۔ کتاب تو دور کی بات ہے آجکل کوئی عدالت کا فیصلہ پورا پڑھ لیتا ہے تو اس پر بات کرنے کے لئے خود کو مکمل اتھارٹی سمجھ لیتا ہے ۔ وہی واقعہ دہرا رہی ہوں کہ جب آسیہ بی بی کی ضمانت پر یہاں ایک پرائیویٹ محفل میں ایک پاکستانی معروف جرنلسٹ سے سوال پوچھا گیا تھا تو ایک مقامی خاتون نے اس صحافی کے جواب دینے سے پہلے ہی کان پھاڑ دینے والی آواز میں سب کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ سوائے میرے اس ہال میں کسی نے فیصلے کو نہیں پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں بیٹھے پچاس لوگ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور یہ تک نہ پوچھ سکے کہ ہم جو آپ کو جانتے تک نہیں اور ایک آپ ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ تک جانتی ہیں کہ ہم نے کیا پڑھ رکھا ہے اور کیا نہیں ۔
ایک بہت پڑھا لکھا دوست جس سے میری آج سے پہلے کبھی سیاست پر بات تک نہ ہوئی تھی،اے پی ایس کے واقعہ پر نفرت سے اظہار کرتے ہوئے کہ ایسے واقعات بار بار ہو تے رہیں تو عام لوگوں کے بچے محفوظ رہیں گے ،اچانک مجھ پر براہ راست حملہ آوار ہو گیا اور کہنے لگا سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اور تم جیسے سستی محب وطنی رکھنے والے اسے برداشت نہیں کر سکتے ۔ میں کچھ بولنے ہی والی تھی کہ ایک کہ بعد دوسرا جملہ جس میں صرف یہ تھا کہ چونکہ وہ ایک پڑھا لکھا انسان ہے اور میں جو عورت ہونے کی وجہ سے ناقصل اعقل ہوں ۔۔ اپنی دانش اور لبرل ازم کا جھنڈا میرے سینے پر گاڑ یہ جا وہ جا ۔۔۔۔
یہ تو بات ہے رویے کی جو بہت عام ہو چکا ہے ، بات شروع کرنے سے پہلے دوسرے کو کہ دیا جاتا ہے کہ تم تو کچھ جانتے ہی نہیں ہو حالانکہ ایسی بات کہنے والے اپنے کھوکھلے اور سطحی پن کا ثبوت دیتے ہیں ۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ہو ئے جب سامنے والے کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم کچھ نہیں ہو تو اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ دراصل وہ اس انسان کی علمیت یا دلائل سے خوفزدہ ہو کر پہلے سے ہی اسے نفسیاتی طور پر چِت کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر وہ حقیقت میں اسے اپنے سے کم علم سمجھتے ہوں اورخود واقعی ہی ایک پڑھے لکھے انسان ہوں تو وہ اس پر ذاتی حملہ کر کے اسے احساس کمتری میں ڈالنے کی کوشش کرنے کی بجائے ہمدردی اور محبت سے اسے سمجھائیں گے اور ان کتابوں کے نام بتائیں گے جنہیں پڑھ کر وہ خود دانش کی چوٹی پر چڑھے بیٹھے ہیں ۔۔۔لیکن ایسا ہو نہیں رہا ۔۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس سارے ماحول کو اور گرما دیا ہے ۔ سنی شعیہ سے بھی زیادہ نواز اور عمران کی فرقہ پرستی ہو گئی ہے ۔ ایسی پولرائزیشن ماسوائے پرو پگنڈا مشنری کے سرگرم ہونے کے علاوہ اور کاہے کو ہوگی ؟
عمران خان نے کہا تھا صرف جانور غیر سیاسی ہو تے ہیں یعنی کہ ہر انسان کو پالٹیکس میں حصہ لینا چاہیئے لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پالٹیکس کی سمجھ تو شائد 1%کو بھی نہیں آئی مگر 99% لوگ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے پروپیگنڈا کا فاعل حصہ بن رہے ہیں ۔ میں نے بڑے بڑے سکالرز کو عمران خان کی صرف نفرت میں چھوٹی چھوٹی گھٹیا پوسٹ فارورڈ کرتے دیکھا ہے ۔ او ر یہی حال شریف فیملی سے نفرت کرنے والوں کا ہے۔
امریکی دانشور نوم چومسکی ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ: جب شہریوں سے بولنے کی آزادی ڈائریکٹ نہیں لی جا سکتی تو پرو پگینڈا کے ذریعے لوگوں کی سوچ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے ۔ اس نے مذید کہا سٹالن دور کے بعد لاطینی امریکہ میں یو ایس غلبہ تھا اور مشرقی یورپ میں روس کا ۔ لاطینی امریکہ میں مشرقی یورپ سے کہیں زیادہ جرائم کے واقعات ہو تے تھے مگر پروپگنڈا کی وجہ سے ہمیشہ اس کے الٹ سمجھا گیا ۔ اور ۹۱۱ کے بعد کمیونزم کی بجائے اسلاموفوبیا یا وار آن ٹیریر کو سوچوں کو کنٹرول کرنے کے لئے عام کر دیا گیا ۔ وزیرستان میں ڈرون اٹیک میں ہلاک ہونے والی بے گناہ بچیوں کا ذکر نہیں مگر دہشت گردوں کے حملے سے بچ جانے والی ملالہ کا لوگوں کے دماغوں پر نقش وہی ہے جیسا مغرب نے چاہا ۔ امریکہ کی ویت نام پر جنگ کے طریقہ کار پر میڈیا بات کرے گا مگر اس کے قانونی جواز پر خامشی رہی اس کے برعکس روس کا افغانستان پر حملہ ایک جارحانہ قدم قرار دیا گیا۔ کس بات کو اہمیت دینی ہے اور کس پر چپ سادھ لینی ہے ۔”
شاید یہ جدید ٹوٹیلارزم Totalitarianismہے ۔
نوم چومسکی اور ایڈرورڈ ہرمن کی کتاب مینوفیچرنگ کونسنٹ((manufacturing consent میں پروپگنڈا ماڈل کے پانچ فلٹر ز پر بات کی گئی ۔میڈیا کے فلٹرزمیں ایک تو میڈیا کے اپنے اداروں کی معاشی مجبوریاں ہیں جس کے ذریعے وہ ہر خبر بغیر کسی مصلحت کے نہیں دے سکتے ۔ دوسرا فلٹر اشتہاروں پر کنڑول ہے ، ریاستی اشتہار بند ہوجائیں تو صحافتی اداروں کی ٹیں بول جاتی ہے جو آجکل پاکستان میں نظر آرہا ہے ، ۷۰ ارب کے حکومتی اشتہارت رکے تو صحافیوں نے موجودہ حکومت کے خلاف محاذ کھول لئے ۔ کہاں پہلے بے شمار مراعات کے ساتھ لفافے ، دروازے تک پہنچ جاتے تھے ، عارف حمید بھٹی نے ایک لائیو ٹاک شو میں کہا تھا کہ شریف حکومت سے لفافہ قبول نہ کیا جائے تو وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ صحافی ہمارے ساتھ نہیں ۔ اور یہ چومسکی کے تیسرے فلٹر میں آتی ہے کہ وائٹ ہاوس ہو یا پاکستانی وزیر اعظم ہاؤس ، حکومتی خبروں تک ایسے نافرمان صحافیوں کی رسائی ناممکن بنا دی جاتی ہے ۔ اشتہاروں کے بیچوں بیچ چند کام کی خبریں چھاپنے کا کام کیسے ہو گا جب پرائیوٹ ان داتا اشتہارات دینا بند کر دیں گے ، پاکستان میں اس کی مثال ملک ریا ض ہیں ۔ جو پاکستان کے آسمان اور زمین کے غیر اعلانیہ مالک ہیں ۔ چوتھا فلٹر جس کا چومسکی نے ذکر کیا ہے وہ ہے فلیکflak۔ان سب کا اکھٹا ہو جانا جن کے مشترکہ مفادات پر ضرب پڑتی ہو اور منفی تنقید کا بازار گرم کر دینا ۔ ۔۔ یہ مجھے موجودہ حکومت پر چاروں طرف سے اکھٹے ہو کر جن میں میڈیا بھی شامل ہے، حملہ آوار ہونے پر فٹ بیٹھتی نظر آتی ہے ۔ ماسوائے ایک دیانتداری کے عمران خان کے پاس نہ تو پرانے کھلاڑیوں سے زیادہ بصیرت ہے اور نہ ملکی حالات عمران خان کے لئے تبدیل ہو ئے ہیں ۔ وہی کر پٹ بیوروکریسی ، وہی کنٹرولنگ اسٹبلیشمنٹ ، وہی کھلا پھرتا ملا ۔ پھر کیا ہے کہ کوئی بھی عمران خان کو معاف کرنے کو تیار نہیں ،سوائے کرپشن پر نکیل ڈالنے کے اور کونسا انوکھا کام ہے جو وہ کر رہا ہے جو پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا ۔صحافیوں کا یہ شور ثابت کرتا ہے کہ ملک لوٹنے والوں میں صرف سیاست دان یا فوج ہی نہیں وہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں ۔ اور جب یہ حصہ ملنا بند ہوا تو وہ اس اپوزیشن کے ساتھ جا کھڑے ہو ئے ہیں جنہیں کرپٹ کہتے ان کا منہ نہیں سوکھتا تھا ۔ سیاست بے اصولی اور یو ٹرن کا کھیل ہوتا ہے تو کیا صحافت بھی یہی کچھ ہے ؟ کس منہ سے کل کو عمران خان کو قائد اعظم کہنے والے آج کہہ رہے ہیں کہ اس کے پاس تو وژن کبھی بھی نہیں تھا ۔۔۔ کیا آپ پہلے اندھے تھے یا آج اندھے ہیں ۔ اگر سیاست دان بے ضمیرا ہے تو آپ تو اس کے بھی مائی باپ نکلے۔اور پلیز سیاسی شعور کو پرو پگنڈا سے مکس نہ کریں ۔عام لوگوں کو سیاسی شعور لینے کے لئے ان لفافہ صحافیوں کے ٹاک شو یا ٹوئیٹر کو فالو کرکے ان کا ریٹ بڑھانے کی نہیں بلکہ خود سے مطالعہ کرنے اور عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔نفرت اور حسد کا جو کھیل ان صحافیوں یا سیاستدانوں کے ذاتی مفادات سے شروع ہو کر ہر طرف پھیل چکا ہے قابلِ مذمت ہے۔