دوغلی عورت حصہ دوم
تحریر؛ روبینہ فیصل
احمد بشیر نے کشور کی ناراضگی کے بعد حیرت سے یہ بھی پو چھا ہوا ہے کہ جب کشور کو پتہ تھا کہ میں وضع داری سے نہیں لکھ سکتا تو اس نے مجھے خاکہ لکھنے کا کہا ہی کیوں۔۔ تو اس کا جواب میرے پاس ہے۔۔ یہ کام اللہ پاک نے آپ سے اس لئے کروایا کہ ہمیں ایسی جعلی ہیومن اور وومن رائٹس کا واویلا کر نے والی دانشور عورتوں کی اصلیت آ پ کے قلم سے ہی پتہ چل سکے۔
احمد بشیر!اگر آپ چھپن چھری نہ لکھتے تو اس کے اندر چھپی چھری کا ہمیں کیسے پتہ چلتا،ہم تو بری عورت کی کتھا کی اس بہادر اور باغی عورت کو سیلوٹ مار مار کر اپنا ہاتھ ہی زخمی کرتے رہتے جو اپنی آپ بیتی میں فرماتی ہیں؛
” کہ تقسیم ہندوستان کے وقت ہو نے والے جبر اور باپ کی جیل نے اسے آنے والے وقتوں کی جیلیں اور جبر سے شناسائی کروا دی تھی۔۔”
کشور ناہید،بنگال میں ہو نے والے بنگالی مرد و زن پر ہو نے والے پاک فوج کے ظلم پر احتجاج کی، مزاحمت کی علامت بن کر ابھرتی ہیں اور ہماری نسل اس بہادر عورت سے متاثر رہتی ہے،جس نے ضیائی مارشل لا کے دور میں مزاحمتی عالمی ادب کا ترجمہ کیا (کیونکہ تب دہشت کی اُس فضا میں اوریجنل لکھ نہیں سکتی تھیں )،جس خاتون نے ملک کی 87فی صد زمین پر صرف 13فی صد لوگوں کے قبضے کے خلاف آواز اٹھائی، جس نے” فئیر ویل ٹو یوٹرس” جیسی نظم لکھ کے سماج کی بوسیدہ روایتوں کو گرا دیا۔
سٹالن جیسے آمر کو للکارنے والی ادیبہ اینا اخما تووا کو جب آپ اپنا آئیڈیل لکھتی ہیں تو ہم آپ کے قدر دان ہو جاتے تھے۔
جب محترمہ نے لکھا؛” بچپن میں گھر والوں نے اور بڑے ہو کر سرکاروں نے ہمارے ہاتھ سے کتاب چھینی،چوراہوں میں کتابیں جلانے کے ورق تمہارا ہی ورثہ ہیں۔ کتابیں بین ہو نے کی تاریخ تمہارے اپنے زمانے کا حصہ ہے۔فتووں کی تاریخ تلاش کر نے کی ضرورت ہی نہیں۔ قدم قدم مسلمان ملک ایسی سنگ باری کی ذد میں ہیں۔ “
دوسروں کے فتووں پر تنقید کر نے والے بوڑھے ہو کر خود بھی وہی کام کر نے لگیں تو اس سے سستی موت ہی ہوسکتی ہے۔جو ہماری تہذیب کی ہمارے معاشرے کی ہو چکی ہے۔
احمد بشیر لکھتے ہیں؛ “جنسیات کے بعد اس کا دوسرا من پسند موضوع حقوق انسانی بالخصوص حقوق نسواں ہے۔۔۔”کتنا غلط خیال تھا آپ کا۔۔ نسواں سے مراد صرف ان کی ذاتی انا ہو تی ہے۔۔
اور ملاحظہ فرمائیے خود بھی ضیائی مارشل کے بارے میں کہتی ہیں؛1979 سے 1993 تک شوہروں نے بیویوں کو زنا کے جرم میں جیل بھجوا دیا کہ وہ سکون سے دوسری شادی کر سکیں، بھائیوں نے بہنوں پر زنا کا الزام لگایا اور ان کا حق ِ وراثت ہڑپ کر لینے میں مردانگی محسوس کی، بیٹیوں کو باپوں نے زنا کا مجرم گردانا کہ وہ اپنی مر ضی کی شادی نہ کر سکیں۔ اور باپ وہ زر فروخت حاصل کر سکیں جس کے عوض ان کی زندگی میں آسودگی آسکے۔
عورتوں کے حقوق پر اتنا کچھ لکھنے والی! آج عمر کے اس حصے میں جب خدا کے حضور پیش ہو نے کا وقت بھی جلد ہی ہوا جاتا ہے آپ فسطائیت اور ملائیت کے بدترین دور میں عورتوں پر ہو نے والے ظلم و ستم پر خاموش ہیں تو جان لیجیئے آ پ کے پرانے الفاظ سب ٹکا ٹوکری ہو ثابت ہو ئے۔
آپ کو یاد کرا دوں محترمہ! جب آپ ستمبر 1971میں سرکاری طور پر بنگال کے دورے پر گئی تھیں۔۔تو آپ نے لکھا تھا؛
“بوڑھی گنگا کے کنارے کیمپ بھرا تھا۔عورتیں ہی عورتیں۔ کیا میں انہیں عورتیں کہوں؟ مشکل سے تیرہ سے پندرہ سال کی پتلی پتلی لڑکیاں جن کی ابھی چھاتیاں بھی سانس نہیں لینے پائی تھیں مگر ان کے پیٹ چھٹے یا ساتویں مہینے کی گواہی دے رہے تھے۔ ان کے گھر والے کہاں تھے۔ وہ تو رات کے اندھیرے میں سازشی اور غدار کہہ کر مار دئیے گئے تھے۔ ان کی نسلیں خراب کر نے کے لئے ان کے ساتھ حرام کاری کی گئی تھی۔ وہ بے امان، بے جگہ بوڑھی گنگا کی گود میں سوکھے ہونٹ اور سوکھی آنکھیں لئے سرنگوں بیٹھی تھیں۔۔۔اقبال ہال کو خالی کرانے کے نام پر سارے لڑکوں کو مار دیا گیا تھا۔
مجھے میرے دوستوں نے میرے پاگل پن کی حرکتیں اور روتا پیٹتا دیکھ کر فورا جہاز میں سوار کرا دیا۔ میری رپورٹ پر دفتری سطح پر بہت سر زنش ہو ئی۔ مجھے اور ان سارے دوستوں کو جنہوں نے بنگالیوں کے حق میں بات کی غدار اور غیر محب وطن کہا گیا۔ میں تو کچھ بھی نہیں بول سکی کہ جس دن، دن دیہاڑے اعلان ہوا، اس دن شام پانچ بجے کی خبروں میں صرف اتنا کہا گیا “دونوں طرف کی فوجوں نے باہمی رضا مندی کے بعد ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ “ہمنوا دوستوں کو پرسا دینے اور مل کر بین ڈالنے کو گھر سے نکلے تو سامنے کا منظر دیکھ کر میری ناقابل برداشت چیخ نکل گئی۔۔لوگ ہنس رہے تھے، لاپرواہ تھے، آئس کریم کھا رہے تھے۔۔اور اس کے بعد چھ ماہ تک میری آواز بند رہی تھی۔ڈاکٹر اس کا سبب نہیں سمجھ سکے تھے۔ “
میڈم آپ زندہ ہیں اور اس دور میں موجود ہیں جب ایک دفعہ پھر سے وہی فوج ہے، وہی مظالم ہیں، وہی غدار کی تکرار ہے،وہی عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا جارہا ہے۔۔ وہی جوان لڑکوں کو مارا جا رہا ہے، آپ نے اس سارے ستم کے بعد کیا سیکھا؟ کیا آپ نے مزاحمت نہ کر نے پر مفاہمت کر لی ہے؟ یا آپ کی منافقانہ سوچ نے آپ کے معیارات مستقل طور پر دوہرے کر دئیے ہیں؟۔۔یا آپ کی آواز پھر سے چھ مہینوں کے لئے بند ہو گئی ہے؟ ورنہ کیا آپ کو نظر نہیں آرہا کہ عمران خان کی سپورٹر اور ووٹر خواتین کو پر امن احتجاجی جلسوں سے کتنی بے غیرتی اور بے شرمی سے اٹھایاجا رہا ہے اور جب وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ہاتھ نہ لگاو، ہم خود پولیس وین میں بیٹھ جائیں گی۔۔تو پولیس انہیں کہتی ہے اتنی شریف ہو تی تو گھر سے باہر نکلتی؟۔۔ میں حیران ہو ں آپ کا اور آپ جیسی بہت سی آزادی کے نام پر کھلا ڈلا لکھنے والی، کھلی ڈلی زندگی جینے والیاں کیسے خاموش ہیں؟ کیا عمران خان کی چاہنے والی خواتین، نسوانیت کے دائرے سے خارج ہو جاتی ہیں۔۔کیا آج نظام کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والے، اپنے حق کے لئے آواز بلند کر نے والے لڑکے، انسان نہیں ہیں؟ آپ کے معاشرے کی اور آج کے دور کی فسطائیت اور ملائیت تو یہی کہہ رہی ہے۔ آپ اس پر آواز کیوں نہیں اٹھاتی ہیں؟۔
پھر آتے ہیں بری عورت کی کتھا کی طرف۔۔۔۔۔
” ایک دن میں جب،ڈھاکہ لبریشن میوزیم جہاں بنگالیوں کی پاکستانی فوج کے خلاف جد و جہد کی تصویری، صحافتی اور تحریری مسوادات محفوظ ہیں، وہاں جانے لگی تو پاکستانی سفارت خانے کے عملے نے کہا وہاں نہ جاؤ تکلیف ہو گی میں نے دل میں کہا “خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔۔”یہ سمجھنے کے لئے قتل گاہ جانا تو ضروری ہے۔۔”
کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس وقت کے خون کے دھبے نہیں دھلے تو کیا آج بہایا جانے والا خون دھل جائے گا؟ ان کو دھونے کے لئے آپ جیسے دانشور کتنے سال بعد ماتم کی صفیں بچھائیں گے اور سینہ کوبی کر کر کے آنے والی نسلوں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے۔ وہی جبر کی کہانیاں اور مظلوموں کی سسکیوں اور آہوں کی دہائی دیں گے؟ اور آپ کا ادب مزاحمتی ادب کہلائے گا اور آپ مزاحمت کی علامت بن کر ابھریں گے؟۔۔
آپ لکھتی ہیں،جس طرح میرے باپ کو تحریک پاکستان میں شامل ہو نے کے جرم میں اٹھایا گیاتھا،بالکل اسی طرح 1970میں ان کے شوہر اور باپ کو اٹھایا گیا تھا۔ دو بھری گاڑیاں آئیں اور صبح چار بجے انہیں بٹھا کر لے گئیں۔ ایف آئی آر میں لکھا تھا ملزم نے کہا ہے;
” فوجی گدھے ہو تے ہیں، یہ ملک چلانا کیا جانیں۔” اس مقدمے میں یو سف کو ایک سال کی سزا ہو ئی (یہ سزا کس طرح ختم کرائی گئی اور پھر اس کا بھگتان مجھے کیسے اٹھانا پڑا۔۔)پھر اگلے سالوں میں میرے اوپر سی آئی ڈی لگی رہی مجھ جیسی نہتی عورت مارشل لا پہ غصہ اتارنے کو بس نظمیں ہی تو کہہ رہی تھی۔۔ہمارے سامنے ہر عمل جو ناروا تھا اور ہر ظلم جو ممکن تھا عذاب ِ بے اماں کی طرح مسلط تھا۔۔۔”
جس عورت نے اتنا جبر سہا ہو، اور فسطائیت کو اندر تک محسوس کیا ہو، وہ آج مظلوم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھا رہی،اگر وہ آج خوفزدہ ہے تو خاموش ہو جائے مگر خواب دیکھنے والوں کی آنکھوں سے خواب تو نہ نوچیں۔۔ عمران خان جو مزاحمت کی علامت بن کر ڈٹا ہوا ہے اس کو توڑنے کے لئے اس پر ہر قسم کا گندا الزام تو نہ لگائیں۔۔ مگر احمد بشیر پہلے ہی بتا گئے ہیں؛
“وہ ان مردوں کو جن سے اس کی کوئی دنیاوی غر ض وابستہ نہ ہو تو وہ خوب ذلیل کر تی ہے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔۔”
آپ ظلم کے خلاف لکھتے ہو ئے فرماتی ہیں؛” بوسنیا میں لوگ اپنا ہی بول و براز کھانے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے سامنے عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، صومالیہ اور گھانا میں قحط زدہ لوگ اونٹوں کی کھال کھانے پر مجبور ہو گئے، کشمیر میں سارے گھر خالی ہو گئے،صرف عورتیں اور بچے ہیں مگر بین نہیں کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی عورتیں جو نکاح کے وقت ہاں نہیں کہتی تھیں، بندوقیں تھامے ہیں۔ اپنے بچوں کو خود کفن پو ش کرتی ہیں۔ میری آنکھیں دھندلانے لگتی ہیں، امن، آشتی،سکون، ملکی سلامتی، کس داموں ملتی ہے۔بڑے ملکوں کے ترازوں میں ہم بے قیمت ٹھہرے۔ سرمایہ داری نظام کے قحبہ خانے آجکل تو انسانی آزادی کی جنگ لڑنے کا نام لے کر حملہ آوار ہو تے ہیں۔”
میڈم! آ پ کو دنیا میں ہو نے والا ہر جبر نظر آتا تھا، آزادی رائے اور صحافت سب کا پتہ تھا اور پھر اچانک 2022میں آپ کی یاداشت چلی گئی، آپ کی نبض تیز ہو گئی اور آپ حالت قومہ میں چلی گئیں کبھی نہ باہر نکلنے کے لئے یا اس وقت تک اسی حالت میں رہیں گی جب تک آپ کے نفع کا وقت نہیں آجاتا، جب مزاحمتی الفاظ لکھنے کی قیمت عمران خان پر لکھے جانے والے مذمتی الفاظ سے زیادہ نہیں طے ہو جاتی؟
احمد بشیر لکھتے ہیں؛
“میں نے کشور ناہید کی توہین نہیں کی تھی اس پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا۔ جیسی شوخ و شنگ وہ تھی ویسی ہی میں نے پیش کی۔۔۔وہ برداشت نہیں کر سکتی کوئی محفل اس پر ملامت کئے بغیر اٹھ جائے وہ مشاہیر کو برا کہتی ہے، بڑوں کے سوانگ بھرتی ہے، چھوٹوں کو چمکار چمکار کر گستاخی
پر ابھارتی ہے۔۔اس کے اندر کا صحرا گالیوں کی بڑی سے بڑی طغیانی سے بھی سراب نہیں ہو سکتا بلکہ اور پھیلتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح پھیلتی ہے اور طاقت پکڑتی ہے اور اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ “
میرا خیال ہے یہی بات ہو گی ورنہ اس عمر کی دانشورہ کو، جس نے اپنی زندگی میں آزادی کے حق میں اور حبس کے خلاف لکھا ہو، جس نے خود یہ سب سہا ہو وہ اس کڑے وقت میں جب ایک طرف سارا گلا سڑا نظام متحد ہو کر کھڑا ہے اور ودسری طرف عمرا ن خان مزاحمت کی چٹان بنا کھڑا ہے، اس آزمائش اور سخت دور میں وہ کپتان کے بارے یہ لکھے کہ؛
“مراد سعید عمران خان کی شامیں رنگین کرتا ہے” تو سوائے گالیاں کھانے کی اس خواہش کے جس کا ذکر احمد بشیر نے کیا ہے اور کیا سبب ہو سکتا ہے؟۔
کیا ان جعلی آزادی صحافت و سیاست دانشوروں کی گالیاں کھانے کی پیاس اتنی زیادہ ہے کہ یہ اپنے الفاظ تک بیچ کر کھا جائیں؟ اور بغیر کسی ثبوت کے کسی پر بھی کوئی بھی بہتان لگا دیں؟
حالانکہ آپ کی ساری ادبی زندگی کی کُل کمائی ہی یہی ہے کہ آپ عورت کی مظلومیت اور انسان کے پسنے کے رونے روتے روتے یہاں تک پہنچی ہیں۔۔۔ کتنی جھوٹی سیڑھی پکڑ کر آپ لوگ چھت تک پہنچی ہیں۔۔ آپ کا نام آپ کا مقام صرف ایک جعل سازی کا نتیجہ ہے۔ تُف ہے ایسے دوغلے معیارات پر۔۔ اور دوغلی شخصیات پر جنہوں نے ہمارا نظام کھوکھلا اور اخلاقیات تباہ کر کے رکھ دی ہے۔