پچاس روپے کا مچلکہ جس پر تمہاری ضمانت ہوئی تھی
اور تم ہنستے مسکراتے انگوروں کی سنگت میں جہاز کی وی آئی پی کلاس میں ایک ایسی حجابن اور حاجن کے ساتھ بیٹھے آنکھوں میں عوام کے لئے تمسخر سموئے ہوئے تھے جس کو تم بہت صدیوں پہلے خرید چکے تھے
تم اس وقت اپنی نقلی ڈاکٹری رپورٹ کی آڑ میں چھپ کر بھاگ گئے تھے ۔۔سب جانتے تھے سب کو خبر تھی مگر سب ہنس رہے تھے اس جھوٹ کو طاقت کا کھیل سمجھ کر سب نے قبول کرلیا تھا مگر چند ایک کڑھ رہے تھے ان چند ایک کو نظروں میں رکھ لیا گیا تھا اور ان کا مستقبل طے کردیا گیا تھا ۔۔
تمہاری بیٹی نے ،تمہاری پارٹی نے “ووٹ کو عزت دو “کا نعرہ لگایا
تم نے جمہوریت کو منہ کی پیپنی بنا کر کیا گنگنایا
تمہارے خریدے ہوئے صحافیوں نے ، سرکاری حاجیوں نے چیخ چیخ کر گلے کا پورا زور لگا کر جمہوریت کے راگ الاپنے شروع کردئیے
پھر تم نے لندن میں مکمل آرام و سکون اور عیاشی کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست پر پوری نظریں لگائی رکھیں کہ پاکستان تمہاری آنے والی نسلوں کا ایک چلتا ہوا کاروبار ہے ، تم اس برباد ملک کے سب سے آباد سب سے خوشحال سٹیک ہولڈر ہو ۔۔ پاکستان ،تمہارے خاندان کا ذاتی کاروبار ہے
یہ پاکستان کا سٹیج نہ ہو، یہ بے بس مجبور عوام کا ارزاں خون نہ ہو تو تم کیا چوسو گے اور کیسے بچو گے ؟ تمہارے جیسی قابلیت کے لوگ اور کہیں ایک دن بھی ایک روپیہ نہیں کما سکتے …
اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لئے پالستان کا ہونا اور اس میں تمہارا حصہ ہونا بہت ضروری ہے اس حصے پر تم نے مکمل دھیان لگائے رکھا ۔۔ لندن بیٹھ کر بھی آنکھ نہ جھپکی۔.
اب تم واپس آرہے ہو
تمہارے استقبال کے لئے وطن کی گلیوں کو انسانی خون سے غسل کروایا گیا ہے
ہر سچ اور ہر حق سے سر زمین پاک کو پاک کردیا گیا ہے اس کے لئے کبھی کسی سچے صحافی کا خون بہایا گیا تو کبھی ان کی زبانیں کاٹ دی گئی ہیں ، کسی سے قلم چھینے تو کسی سے اس کا ملک چھین لیا ۔۔
سچ سے تمہیں الرجی تھی ،ہے اور رہے گی اور یہ الرجی بھی معمولی نہیں بلکہ جان لیوا ہے اس لیے سارے سچے صحافی ملک بدر کر دئیے گئے ہیں
پھر کچھ خواب دیکھتی دیوانی آنکھیں تھیں ، انہیں بھی نہیں چھوڑا گیا انہیں نوچ دیا گیا ہے ۔۔ خوابوں کو اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ جان سے ہی چلے گئے ہیں ۔۔۔
خوددار عورتیں یا خوفزدہ کردی گئی ہیں یا سلاخوں کے پیچھے بند ہیں ۔۔ کسی کا دوپٹہ کھینچا گیا ہے تو کسی بچی کے اعضا کو چھوا گیا ہے ، چاردیواریوں کو آپ کے ذاتی قید خانوں میں بدل دیا گیا ہے طاقتور کسی بھی وقت اندر پھلانگ کر کچھ بھی اٹھا سکتے ہیں ، چُرا سکتے ہیں ، چھو سکتے ہیں
تو اب مجال ہے جو کسی کی بہادر آواز، خوددار آواز ،حق مانگتی آواز ،با شعور آواز تمہارے کانوں تک پہنچ پائے ۔۔
لوگوں کے گھر گرا کر چاردیواری پھلانگ کر کاروبار تباہ کر کے راہیں ہموار کردی گئی ہیں ان پر چلتے ہوئے آئیں اور موج کریں لندن میں آپ نے جتنے دن انتظار میں گزاریں ہیں ان کے کفارے کے لئے بھوکی ننگی بے بس مخلوق خدا کی اتنی قربانیاں کافی ہیں یا اور کچھ اور انتظام بھی کیا جائے ۔۔۔
دیوتا ! یہ مت بھولنا کہ تمہارے چرنوں میں ہم نے نو سال کا بچہ بھی قربان کیا ہوا ہے ۔
صدقے اتار دئیے گئے ہیں
، بلیاں ،قربانیاں سب ہوچکی ہیں
راستہ ہموار ہے
سب کچھ تیار ہے
چلو اب دھوم دھام سے آجاو
باقی جو کمی کوتاہی رہ جائے گی وہ استقبال والے دن ہوجائے گی ۔۔۔
بس اب ،لاشوں پر ،عزتوں اور غیرتوں پر ،مسمار چاردیواریوں پر قدم رکھتے جاؤ ،آگے بڑھتے جاؤ
سولہ کروڑ لاشیں ہاتھوں میں اپنی ہار کا ہار تھامے تمہارے عالی شان استقبال کی تیاری میں چوکس کھڑی ہیں …
آجاو اب تیاری مکمل ہے
راستہ بالکل صاف ہے ۔۔۔۔
تم قدم بڑھاؤ
تمہارا پاکستان تمہارے لئے تیار ہے ۔
روبینہ فیصل