یہ خلا نہیں تھا یہ اس کا خالی پن تھا۔وہ اس خالی پن کا نام تلاش کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں خلاؤں میں کچھ کھوج رہی تھیں۔
“تم کب سے باورچی خانے میں کھڑ ے ہو۔ اور یہ فرج کھول کر کیا دیکھتے جا رہے ہو۔ کچھ کھانے کو چاہیئے؟”
اس نے سہم کر اس عورت کو دیکھا جو اس کی طرف بہت غصے سے دیکھ کر چلا رہی تھی۔
میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں، بے بی تم مجھے کیوں تنگ کرتے ہو؟ تمہیں کیا ہو تا جا رہا ہے؟ اب اس عورت کے غصے بھرے چہرے پر دکھ کی ایک لہر تھی؛ “میں نے کیا کیا نہیں کیا تمہارے لیئے اور تم ہو کہ بس۔۔۔ “
وہ عورت وہیں کچن میں پڑے ہو ئے سٹول پر بیٹھ کر رونے لگی، اس کو روتا ہوا دیکھ کر وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو گیا۔
“خدا کے واسطے کچھ تو بولو۔۔کیا تمہارا دل مجھ سے بھر گیا ہے؟ “عورت کی آنکھوں میں دکھ کا سمندر ٹھہر گیا تھا۔وہ اس عورت کو ایسے ہی روتا ہوا چھوڑ کہ اپنی خاموش آنکھوں کے ساتھ تیزی سے کچن سے باہر نکل آیا۔۔
وہ اس کے پیچھے بھاگی آئی اور اس کا کندھا پکڑ کر چلائی؛ “میں تمہاری بیوی ہو ں۔۔چالیس سال ہو گئے ہیں ہماری شادی کو۔۔ چالیس سال۔۔ تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا۔ لیکن مجھے اب ایسے لگ رہا ہے جیسے میں کسی اجنبی کے ساتھ رہ رہی ہوں۔۔۔خدا کے واسطے مجھے بتاؤ تمہیں کیا مسئلہ ہے۔۔ “
وہ ایک دم سے ہنس دیا؛ “چالیس سال؟ کیا تم میرے ساتھ مذاق کر رہی ہو؟ مجھے تو ابھی تیار ہو کے یو نیورسٹی جانا ہے۔ آج تو پہلی کلاس لے کر ہی چھوڑوں گا، ہمیشہ لیٹ ہو جاتا ہوں۔۔ “
عورت کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا؛ “بے بی! ہنی!۔۔ یو ں نہ کرو۔۔ یہ مذاق کا وقت نہیں ہے ہم بہت برے حالات میں پھنسے ہو ئے ہیں۔”
“مذاق تو تقدیر کرتی ہے۔ دیکھو تقدیر نے کیسا مذاق کیا ہے کہ ایک اجنبی عورت جس کو میں جانتا ہی نہیں میرے سر پر سوار ہے اور کہہ رہی ہے چالیس سال سے ہم اکٹھے رہ رہے ہیں۔۔ “
“کیاتم مجھے نہیں جانتے ہو؟ میں تمہاری بیوی ہو ں، تمہارے دو بچوں کی ماں۔۔ تمہارے اچھے برے وقت کی شریک۔ جب سے کینیڈا آئے ہیں، تمہیں بھی پال کر کھلا رہی ہوں۔۔ تم تو۔۔۔ تم تو۔۔” عورت نے غصے سے آنکھوں پر اپنی مٹھیاں دبا دیں۔۔
“تو کیا تم صبیحہ ہو؟ اس کی آنکھوں میں پہچان کی چمک پل بھر کو ابھری:”شائید میں رات ٹھیک سے سویا نہیں اس وجہ سے پہچان نہیں پایا تمہیں۔۔مجھے معاف کر دو صبیحہ۔۔ “
عورت کی آنکھیں اب حیرت سے باہر کو ابل آئیں۔ وہ جانتی تھی کہ صبیحہ اس کے شوہر کی محبت تھی۔ شادی کی پہلی رات ہی اس نے صبیحہ کے بارے میں اپنی محبت کا اعتراف کیا تھا۔ اور اسے بتایا تھا کہ اس کے بغیر وہ کتنا نامکمل ہو گیا تھا اور اگر اب وہ اُسے نہ مل جاتی تو شائید وہ زندگی بھر کسی سے محبت نہیں کر سکتا تھا۔
اس رات اس نے اپنے شوہر سے وعدہ لیا تھا کہ اس کے بعد صبیحہ کا ذکر ان کے درمیان کبھی نہیں ہو گا۔ وہ ہمیشہ اس وعدے پر قائم رہا تھا مگر اب۔۔ اب ایسا کیا ہو گیا تھا کہ وہ اس کوہی صبیحہ کہہ رہا تھا،وہ بھی اس کے منہ پر ہی۔
“میں آپ کی بیوی۔۔ آپ کی محبت۔۔ مونا ہوں۔۔ آپ کی مونا۔۔”
ابھی وہ یہ دہرا رہی تھی کہ اس نے عورت کا ہاتھ جھٹکا اور کسی نوجوان کی طرح سیڑھیاں پھلانگتا ہوااپنے کمرے میں چلا گیا۔
عورت اس کے پیچھے جانا چاہتی تھی لیکن کچھ سوچ کر وہیں لاؤنج میں صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔ کچھ عرصہ سے اس کے پیار کر نے والے اور تابعدار شوہر میں ایک بڑی واضح تبدیلی نظر آرہی تھی۔ وہ الماریوں کو کھول کر وہاں گھنٹوں کھڑا رہتا تھا، کبھی مائکرو ویو کبھی فرج کا دروازہ کھول کر بندنہیں کرتا تھا۔ باتھ روم میں نلکا کھول کر یونہی باہر نکل آتا تھا۔
مونا،ہت چڑچڑی اور بدمزاج ہونے لگی تھی۔ زمانے کی سختیوں نے اس کو بھی تھکا دیا تھا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے وقت سے پہلے ہی جھریوں کا جال بچھ چکا تھا۔اس کی عمر کی عورتوں کے چہرے سکون اور دولت سے حاصل کئے گئے جوانی کے تمام نسخوں کی وجہ سے ابھی تک جوان لگتی تھیں۔ وہ اپنا چہرہ دیکھتی مگر اپنی جگہ کسی بوڑھی اجنبی عورت کو کھڑا پاتی تو گھبرا کر آئینے سے پیچھے ہٹ جا تی تھی۔ اب تو اس نے تصویر کھنچوانا اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو نا چھوڑ دیا تھا۔ اُن کے دونوں بچے شادی کے بعد اپنے نئے گھروں میں جا بسے تھے۔
پاکستان میں ایک اچھی زندگی گزارنے کے بعد جب ہارون اور مونا نے ہجرت کا فیصلہ کیا تھا تو وہ ان کے لئے آسان نہیں تھا۔اپنے وطن میں ان کا نام تھا، اچھی نوکری تھی اور سب سے بڑھ کر ایک احترام تھا، عز ت تھی جس کی وجہ سے وہ خود اعتماد تھے اور کچھ کچھ مغرور بھی تھے۔ یہاں آکر سب سے پہلے غرور خاک میں ملا، پھر خود اعتمادی کا خون ہوا اور پھر نوکری کے لالے پڑے رہے۔ ساری زندگی وہ اپنی آرٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو جھاڑتا پونچھتا ہی رہا تھا۔
۔ ہارون،لاہور کے ایک نامی گرامی آرٹ کالج میں پروفیسر تھا۔ مٹی کی مورتیں بنانا اور اس کی تعلیم دینا اس کا پیشہ ہی نہیں، جنون بھی تھا۔ مگر جب ایک دفعہ مذہبی جنونیوں نے ان کے گھر پر پتھروں سے حملہ کردیا تو وہ ڈر گیا۔اس کی بیوی مونا ہ جو کہ ایک نڈر عورت تھی اس دن و ہ بھی اپنے بچوں کو کبھی بیڈ کے نیچے اور کبھی الماری میں چھپا رہی تھی۔ اور خوف اس کمرے کے ہر کونے سے نکل نکل کر انہیں دبوچ رہا تھا۔ بے بسی کے احساس نے ان دونوں کو ایسا جکڑا کہ انہیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ پاکستان ان کے لئے بنا ہی نہیں تھا۔
اس کے بعد سے وہ دونوں خوف اور بے یقینی کے مریض بن گئے تھے ۔
ان کی بیٹی جب تک کالج سے گھر نہ پہنچ جاتی وہ شدید بے چین رہتے۔پھر ہارون نے بیٹی کو کالج سے خود لانا لیجانا شروع کردیا۔ جس سے اس کی اپنی کلاسسز میں وقت پر پہنچنا دشوار ہو گیا تھا مگر یہ سب کر کے بھی اس کا دل اس کاغذ کی طرح پھڑپھڑاتا رہتا تھا جسے تیز ہوا میں بغیر کسی سہارے کے رکھ دیا گیا ہو۔
ان کی راتوں کی پرسکون نیند برباد ہو چکی تھی۔ کبھی ہارون کی آنکھ لگ ہی جاتی تو مونا کسی ڈراونے خواب سے بیدار ہو کر چیخ اٹھتی تھی اور پھر وہ دونوں ساری رات جاگتے رہتے تھے۔وہ پتھر جو بلوے والے دن ان کی کھڑکیوں پر برسے تھے، اور وہ ڈنڈے جو ان کے بند مین گیٹ پر برسائے گئے تھے اور باہر کھڑے ان کے سیکورٹی گارڈ کو زدو کوب کیا گیا تھا،وہ سب مناظر دن رات ان کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ سب سے بڑھ کر جس چیز نے انہیں دہلا کے رکھ دیا تھا،وہ ان کے علاقے کے ایس ایچ او کا رویہ تھا۔ جو الٹا انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا رہا تھا؛
یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی، جب آپ ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں تو اس کی اقدار کا پاس کرنا چاہیئے۔
ہارون ایس ایچ او کی بات سے پتھر بر سنے والے منظر سے بھی زیادہ خوزدہ ہو گیا۔مونا ہمت کر کے بولی؛
“ہم نے کون سی غیر اسلامی حرکت کی ہے۔۔”
“واہ مادام۔۔ بت بنانا۔۔بت بیچنا،بت بنانا سکھانا یہ سب شرک ہیں۔۔”
“تو اس ادارے پر پتھر برسائیں جہاں یہ سب سکھایا جاتاہے ہم تو۔۔۔ “
آپ غیر مسلم ہیں مادام۔ “
مطلب وہ ادارہ مسلم ہے؟ اور ایسا ہے بھی تو کیا مسلمان کو اپنے اقدار کا زیادہ پاس نہیں کرنا چاہیئے؟
آپ بحث نہ کریں ورنہ توہین مذہب میں کچھ بھی ہوا،آگ لگی یا بلوا۔۔ قتل ہو یا زخمی۔۔پھر ہم کنڑول نہیں کر پائیں گے یہاں ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ہماری مجبوری سمجھیں۔۔
اُس دن ہارون کو لگ رہا تھا کہ اسکا دل زور زور سے دھڑ دھڑک کر ہی دم توڑ دے گا۔ اس کو اپنے بیٹے کی فکر ہو ئی جو بہت پرو گریسیو نظریات رکھتا تھا، جو انسان کو ہر مذہب سے زیادہ اول سمجھتا تھا۔ اس کا اس مذہبی ملک میں کیا مستقبل ہو گا،وہ تو کسی بھی اندھی گولی کا،بھڑکتی آگ کا، پتھراو کا بڑی آسانی سے نشانہ بن جائے گا۔۔۔۔
اس دن انہوں نے جو کمایا، بچایا تھا، جو آباو اجداد کا اثاثہ تھا سب بیچنے اور اس ملک کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہجرت کے مشکل فیصلے سے ہجرت کر نے کے مشکل ترین عمل سے گزرنے اور کینیڈا کی سر زمین تک پہنچنے میں ان کے ہاتھوں سے بہت کچھ سر ک گیا تھا اور باقی جو تھوڑا بہت بچا تھا وہ نئی زمین پر اپنے قدم جمانے میں نکل گیا۔
ہجرت کے بہت سالوں بعد جب ہارون نے ایک دن اپنے ہاتھ دیکھے تو وہ خالی تھے۔ بچے، جن کے تحفظ کی خاطر وہ اپنے آباء کی قبریں،اپنا ماضی، اپنا گھر سب پیچھے چھوڑ آیا تھا، وہ بچے اُسے چھوڑ کے جا چکے تھے۔مونا جو پاکستان میں اس کی عزت اور مر تبے سے مستفید اور لطف اندوز ہونے کی عادی تھی یہاں اس کی بے حثیتی کو قبول نہیں کر رہی تھی۔ اس لئے وہ اُسے گھر میں کاٹھ کباڑ لگتا اور باہر کی دنیا میں اس نے اپنے آرٹسٹ شوہر کو ایک نمائشی چیز کے طور پر رکھ چھوڑا تھا جسے وہ پاکستانی کمیونٹی میں دکھا کر پاکستان میں مدفون عزت اور شہرت کو کچھ پل کے لئے دوبارہ جیتی تھی ۔
ہارون اس سارے کاروبار میں کسی جمورے کی طرح زندگی گزارنے لگا تھا۔ جس کا کام فقط اتنا ہوتا ہے کہ جو مداری کہے اس پر من و عن عمل کر لیا جائے۔ اس جمورا ناچ میں اس کی زندگی کی ڈور کب اس کے ہاتھوں سے نکل گئی اسے خبر ہی نہیں ہو ئی۔
اب وہ حال سے مکمل بے خبر ہو چکا تھا۔ مونا نیچے کچن میں پریشان کھڑی اپنے شوہر کی ماضی کی محبوبہ صبیحہ کواس گھر کی دیواروں کو پار کر نے سے روکنے کی تدبیریں سوچ رہی تھی۔وہ حیرا ن تھی کہ ان دونوں کی محبت کے، وفا کے، جد و جہد کے، قربت کے، سب سال کس کنویں میں جا گر ے ہیں اور جو موجود ہے وہ صرف ماضی ہے۔ محبت کے وہ دو سال جو اس کے شوہر نے ایک اجنبی عورت کے ساتھ خاموش محبت میں گزارے۔۔وہ موجود ہے وہ زندہ ہے۔
وہ اوپر بیٹھا سوچ رہا تھا، اس نے اپنی بیوی کے حقارت بھرے روئیے کا انتقام لے لیا ہے۔ اب وہ کیا کرے گی؟ اس سے لڑے گی؟ اسے مذید اس کی بے کار زندگی کے طعنے دے گی؟ اس کی زندگی کو بوجھ کہے گی؟ جو بھی کہے وہ سب مل کر بھی میرے اس کاری وار کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو میں ابھی ابھی کر آیا ہوں۔ اس کے بعد میں ایسا خاموش ہو جاوں گا کہ یہ عورت میری آواز کو ترسے گی۔
کچھ دیر بعد مونا چیختی چلاتی اس کے سر پر موجود تھی؛
تم کیا سمجھتے ہو خود کو۔۔ہو کون تم؟
وہ چپ کر کے اسے دیکھتا رہا۔
بولو اب۔۔ میری ساری زندگی کھا گئے اور اب معصوم بنے بیٹھے ہو
ہارون کی آنکھوں میں کرب اتر آیا مگر وہ خاموش رہا۔
اب کوئی اس گھر میں تمہارا نکما پرستار گھس کے تو دکھائے۔۔
ہارون کی آنکھوں میں بے بسی اتر آئی
اب دیکھتی ہوں تمہارا کوئی پرانا یونیورسٹی کا،پاکستا ن کا دوست یہاں نظر بھی کیسے آتا ہے۔۔۔ صبیحہ۔۔مائی فُٹ۔۔
تم مجھے صبیحہ کا نام لے کر ذہنی اذیت میں مبتلا کرو گے۔۔؟بولو اب بولتے کیوں نہیں۔۔۔
ہارون کی آنکھوں میں نمی اتر آئی مگر اس نے اپنی نہ بولنے والی قسم نہیں توڑی اور خاموش رہا۔ وہ خود سے یہ عہد نہ بھی کرتا تب بھی وہ بول نہیں سکتا تھا اس کے الفاظ کہیں گُم ہو گئے تھے۔ بلکہ وہ خود بھی مکمل طور پر گم شدہ تھا۔
مونا کی مختلف دھمکیاں جاری تھیں۔ وہ خود کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑا ہوا اس نے نہ بولنے کا فیصلہ خود سے کیا تھا، نہ سننے کا فیصلہ اس کے لئے تقدیر نے کردیا۔۔ اُسے،مونا کے ہلتے ہو ئے لب نظر آرہے تھے، مگر اس کی سماعتوں تک کوئی لفظ نہیں پہنچ رہا تھا۔وہ انہیں سننے اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتا تھا،اس کے پاس کر نے کے لئے بہت کام تھے۔ اسے ابھی بہت سفر کر نا تھا۔ جتنا سفراسے یہاں تک پہنچنے میں کرنا پڑا تھا اتنا ہی اسے واپس کرنا تھا،اسی صورت اسے ان الفاظ کی سمجھ آسکتی تھی جو مونا اسے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی اور وہ سننے سے قاصر تھا۔
واپس جا کر وہ اسی مقام پر یہ بات سمجھ سکتا تھا کہ لوگوں سے، نظام سے، اور اپنی بقا کی خاطر لڑتے لڑتے ایسا کیا ہوا، کب ہوا اور کیوں ہوا کہ ایک ہی سمت میں سفر کر نے والے دو مسافروں کے راستے اور منزل الگ الگ کیوں ہو گئے۔۔
ہارون کا واپسی کا سفر اتنی شدت سے شروع ہوا کہ مونا، اس کے بچے، ارد گرد کا ماحول سب دھندلاتا گیا۔۔۔
نفرت اور غصہ اس کی آنکھوں میں ٹھہر گیا۔ وہ خاموش ہو گیا مگراس کے ہاتھ ہر وقت حرکت میں رہتے جیسے مٹی کو گوندھ رہا ہو،اور اس سے نئی مورت بنا ہو رہا ہو۔ ایک دن نئی مورت اس کے ہاتھوں میں ابھر آئی۔۔مورت کے مکمل ہوتے ہی اس کی اپنی موت ہو گئی۔
مر نے کے بعد اس کی آنکھوں کے تمام رنگ، غم، غصہ، نفرت، بے بسی کے غائب ہو چکے تھے ۔ نئی مورت نے ہاتھوں سے آنکھوں تک کا سفر مکمل کر لیاتھا۔ایک آرٹسٹ کی زندگی کا دائرہ بھی مکمل ہو چکا تھا۔