دہلیز پر جو خواب ٹوٹا ہے
وہ کل کا تو نہیں تھا
وہ تو نہ جانے کتنے سالوں سے
نانیوں اور دادیوں نے الھڑ انکھوں میں جگا رکھا تھا
یہ جو دیوار پر لگی تصویر اچانک دھڑام سے نیچے گر گئی ہے
یہ کل ہی تہ نہیں ٹا نگی گئی تھی
یہ تو اس آئینے میں سالوں سے نظر آرہی تھی جو لڑ کیاں تکئیے کے نیچے
!اس امید پر رکھ کر سو تی تھیں کہ
اس رات کے خواب میں ان کے دلہا کے شبہیہ ابھرے گی
یہ جو تصویر گر کر ٹوٹ گئی ہے (یہ صدیوں شبہیہ ابھرے گی )
یہ جو کل دیکھتے ہی دیکھتے اسمان پر ایک بادل کا رنگ کالا سیار پڑ گیا تھا
یہ بادل صرف کل ہی تو نہیں اسمان پر ایا تھا۔
یہ کالج کے اسمان پر نیلے رنگ میں نہ جانے کتنے سالوں سے رکا ہوا تھا۔۔۔
یہ جو کل محبت اور اعتماد کی تحریر دیکھتے ہی دیکھتے کاغذ سے غائب ہو گئی
وہ صرف کل ہی تو نہیں لکھی گئی تھی
نجانے کب سے محبت کی کہانیاں لکھنے والے اسے صفحات پر اتا ررہے تھے
کل جو میرے دروازے کے سامنے کھڑی سڑک یکا یک کہیں اور مڑ گئی
اور پھر نظروں سے اجھل ہو گئی یہ سانحہ صرف کل کا تو نہیں
اس سڑک نے دوسالوں سے راستہ بدلنے اور غائب ہونے کی ٹانگ رکھی تھی۔
خواب، تصویر، تحریر، بادل اور سڑک۔۔۔ ان کے ٹوٹنے اور بدلنے کی بات ہے
(روبینہ فیصل)