ہمارے کپتان کے بیٹوں کا پہلا انٹرویو جو انہوں نے مجبور ہو کر اپنے باپ کی رہائی کے لئے دیا میں اس انٹرویو کو ایک ماں کی، ایک والدین کی نظر سے دیکھ رہی تھی ،بچوں کی آنکھوں میں چھپا دکھ محسوس کررہی تھی ۔
جب میرا پہلا بچہ ہادی پیدا ہوا تھا تو میرے اندر کا انقلابی ٹھنڈا ہوگیا تھا مجھے اپنی موت سے ڈر لگنے لگا تھا صرف اس وجہ سے کہ میری موت میرے بچے کی آنکھوں میں آنسو لے آئی گی اس خوف نے پھر مجھے کبھی پہلے کی طرح بے خوف نہیں ہونے دیا مگر آفرین ہے عمران خان پر جس نے انسان کے اس سب سے بڑے خوف کو بھی اپنے قابو میں کر لیا ہوا ہے ۔۔
ہم عام والدین ہیں جن کی اکثریت نے اپنی جوانی میں پاکستان کے لئے بہت خوبصورت خواب دیکھے ہوں گے مگر وقت اور حالات نے ہمیں سمجھا دیا کہ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہمارے بس میں نہیں سو اپنا آپ لپیٹا اور پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کردی اور اس لاہور سے جدا ہونے کا سوچ لیا جس کی مٹی میں کھیل کود کر اور پڑھ لکھ کر جوان ہوئے تھے اور جس سے جدائی کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔
ہم دوستوں ، بہن بھائیوں کے قہقہے ، ہماری شرارتیں ہماری جوانی کی فکر اور بے فکریاں جہاں رہتی تھیں ہم نے اس گھونسلے کو الوادع کہا اور اپنے اپنے گھونسلوں کو محفوظ کر نے دنیا کے مختلف ممالک میں بکھر گئے ۔
مگر دوسری طرف عمران خان تھا ۔۔ وہ جو زندگی میں سب حاصل کر چکا تھا وہ باہر کی دنیا سے پلٹ آیا ۔۔ اس نے پاکستان کے تمام بچوں کو اپنا سمجھا اور آنے والی نسل کے بہتر مستقبل کے لئے اسی اجڑے پجڑے گھونسلے کے بوسیدہ نظام سے لڑ گیا ۔۔
وہ ہم سب سے بلند ہوتا گیا ہم سب اس کے سامنے چھوٹے ہوتے گئے ۔اکثریت کو تو اس کی عظمت کا احساس تھا سب اس کو سراہنے لگے مگر کچھ کم ظرف کینہ پرور حاسدین نے اسے گرانے کا عزم کر لیا ۔اپنے بونے بونے کرداروں کو رنگ و روغن کر کے ، ان کو مصنوعی سیڑھی پر چڑھا کر اس عظیم انسان کے قد کے برابر لانے لگے ۔۔
ان کی مصنوعی چکا و چوند کے سامنے عمران خان کا خالص پن مزید نکھرتا گیا مگر اس کی فیملی لائف اس کی اپنی زندگی بکھرتی گئی ۔۔۔
کل اس کے بیٹوں کو سنا تو پہلا خیال یہی ذہن میں آیا نیت صاف ہو ، دوسروں کے بچوں کے درد کو اپنا سمجھ کر اسے ٹھیک کرنے لگو تو خدا آپ کے بچوں پر خود ہی رحمت کا سایہ کردیتا ہے ۔۔
عمران خان کے بچے جانتے ہیں کہ ان کا باپ جب دوسرے بچوں کی فکر میں ان سے دور بیٹھا ہے تو وہ اصل میں انہی کی فکر کررہا ہے ۔۔ اس کائنات کے بچے اس کے بچے ہیں
عمران خان کے بچے جانتے ہیں کہ ان کا باپ اصولوں پر سودے بازی نہیں کرے گا اور وہ اس بات پر ڈر یا گھبرا نہیں رہے تھے بلکہ وہ اس بات کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے بڑے اعتماد سے باپ کے پیغام کو کھول کے بیان کررہے تھے ۔
انہیں خودداری ، اصول پسندی ، انصاف سب کے مفہوم سے نہ صرف آگاہی ہے بلکہ وہ “ پہلی دنیا “ کے شہری ہو نے کے باوجود تیسری دنیا کے اس المیے کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہاں غریب کو اور کمزور کو انصاف نہیں ملتا اور اسی کے لیے ان کا باپ طاقتوروں سے الجھ بیٹھا ہے
وہ جانتے ہیں کہ ان کا باپ غریب کے لئے ایک آئیڈیل زندگی دیکھنا چاہتا ہے یا کم از کم سب کے لئے ایک سا عدل کا نظام دیکھنا چاہتا ہے ۔۔
ان کا باپ جس ٹارچر سے گزر رہا ہے اس کی تکلیف ان بچوں کی آنکھوں سے عیاں تھی ، مگر وہ مضبوط چہروں کے ساتھ اپنا مدعا دنیا کے سامنے لا رہے تھے ۔۔ انٹرویو کر نے والا حیران تھا کہ یہ کس صدی کی بات ہورہی ہے یہ کس ملک کی بات ہورہی ہے یہ کہاں کی جیل ہے جہاں اتنا ظلم و ستم ہورہا ہے ۔ غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے اور ملک کا سب سے مقبول ہیرو سابقہ وزیر اعظم بے بس ہے اور اتنی بڑی آبادی بے بس ہے ۔۔ رول آف لا جس کے لیے وہ یہ ساری جد و جہد کررہا ہے ، وہ کٹھ پتلی ہے ۔۔۔۔
وہ عمران خان کے بچوں سے پوچھتا ہے کیا تم لوگوں نے اپنے والد کو کبھی نہیں روکا کہ ان انگاروں سے کیوں کھیل رہے ہو ۔۔ چھوٹا سلمان بولا میں کہتا تھا میں چاہتا تھا وہ بس کرکٹ کمنٹری کریں اور پرتعیش پرسکون زندگی گزاریں ۔۔ بڑے بیٹے قاسم نے کہا میں نے یہ کوشش کبھی نہیں کی کیونکہ وہ ہمارے بچپن سے ہی ہمیں دوسروں کا احساس کرنا ہی سکھاتے تھے ۔
سچ ہے عمران خان کو صرف اپنے لئے جینا کبھی آیا ہی نہیں ۔۔۔ سولہ سال کی عمر سے وہ اس ملک کی سر بلندی کے لیے لڑ رہا ہے ۔۔
عمران خان کے بچوں کی اعلی تربیت ، ان کی تعلیم ان کا اخلاق ان کا بولنا ان کا اعتماد اس پر کبھی اسے انفرادی طور پر محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی اللہ نے اس کی نیک نیتی اور دوسروں کے لیے درد دل کو دیکھتے ہوئے اسے ایسے پیارے بیٹوں سے نواز دیا کہ جو بلاشبہ اس کا نام روشن کئے رکھیں گے ۔۔
میں ایک ماں ہوں اور جانتی ہوں جب بچے آپ کو سمجھ جائیں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں دولت اور مفاد پرستی سے اوپر اٹھ جائیں اور ایک اچھے انسان بن جائیں غریبوں کا درد دل میں محسوس کرنے لگیں تو اس سے بڑی دولت اور کوئی نہیں ہوسکتی اللہ کا اس سے بڑا انعام اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔۔۔
ان بچوں کی اپنے باپ سے محبت اور عقیدت اس بات میں بھی نظر آتی ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں ۔
امیر ترین نانا اور ماں کے ساتھ رہتے ہوئے انگلینڈ جیسے ملک میں پرورش پانے کے باوجود اپنے باپ کی محبت میں وہ پاکستان کا درد بھی ویسے ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔
یقین مانئیے احساس کرنے والے والدین کی سب سے بڑی وارثت احساس ہی ہوتا ہے وہ آگے بچوں میں منتقل ہوجائے تو جانئیے والدین سرخروہوگئے اور ایسی ہی آنے والی نسلوں کے دم سے اس کائنات میں کچھ بہار رہے گی ۔۔۔ ورنہ تو شریفوں زرداریوں منیروں جیسی کھوکھلی اور مصنوعی نسلوں نے زمین کو خود غرضی ، سطحی پن ، کینہ پروری ، چھچھور پنے اور خود ستائشی کا مستقل روگ لگا دیا ہے ۔
روبینہ فیصل