دستک
بھگت سنگھ کون ہے؟
پاکستانی، ہندوستانی، بنگالی نوجوانوں کے لئے انقلابی سوچ کی وہ کہانی جس کو انہیں ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔تاکہ وہ اپنے بچوں کو بتا سکیں کہ بھگت سنگھ کیسے پیدا ہو تا ہے اور وہ کون ہو تا ہے؟
بھگت سنگھ بننے کا پہلا قطرہ۔۔۔۔۔۔
19سال کے کرتار سنگھ سرابھا نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں کہا اس کی پارٹی انگریز حکومت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا چاہتی ہے کیونکہ یہ سرکار تشد د اور نا انصافی پر قائم ہے۔ اسے عدالت میں بیان بدلنے کا مشورہ دیا گیا اس نہ صرف انکار کیا بلکہ لندن میں پھانسی پانے والے مدن لال دھینگڑا کا بیان دہرایا؛
“جو ملک غیر ملکی سنگنیوں کی نوک سے دبا ہوا ہے، وہ ہمیشہ جنگ کی حالت میں ہو تا ہے “۔اسے 16نومبر 1915کو پھانسی دے دی گئی۔
پھانسی سے پہلے ا س نے کہا؛
“میری آرزو صرف اتنی ہے کہ میرا ملک آزاد ہو جائے۔ میں نے جو کچھ بھی کیا اس کا مقصد یہی تھا۔ میں نے کبھی کسی شخص،ملک،مذہب یا طبقے سے متعلق نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ میری صرف ایک تمنا ہے۔۔ آزادی۔”
بھگت سنگھ یہ کہانی سنتے سنتے جوان ہوا تھا۔اس کی جیب میں اس انقلابی کی تصویر ہوا کرتی تھی۔
بھگت سنگھ بننے کا دوسرا قطرہ؛
برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کر کے اپنے مفادات کی لڑائی میں ان کو ایندھن کی طرح استعمال کیا اور لالچ یہ دیا گیا تھا کہ جنگ ختم ہو تے ہی ہندوستان میں نئی اصلاحات نافذ کی جائیں گی مگر اس کی بجائے جنگ ختم ہو تے ہی رولیٹ بل نافذ کر دیا گیا جس کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کے کے انہیں بغاوت قرار دے دیا گیا۔ اس کالے قانون کے تحت کسی کو بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا، قائد اعظم اور کئی دوسرے با ضمیر ممبران ِاسمبلی نے اس بل کی مخالفت میں استعفی دے دیا تھا۔ اس بل کے خلاف جلوس نکالنے والوں پر فائرنگ کی گئی اور اس فائرنگ کے خلاف 13اپریل1919 کو جلیانوالہ باغ میں ایک جلسہ منععقد کیا گیا۔اس دن بیساکھی کا میلہ بھی تھا جسے کسان منانے امرتسر آیا کرتے تھے۔ جنرل ڈائر نے یہاں ایک خونی کھیل کھیلا اور ہندو، عیسائی، سکھ اور مسلمان جن سب کی پہچان بس ہندوستانی تھی، انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ خون پانی کی طرح بہنے لگا اور باغ لاشوں سے بھر گیا۔، نہتے شہریوں پر فائرنگ اس وقت رکی جب گولیاں ختم ہو گئیں۔ شیر خوا ر بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی موت، جنرل ڈائر کی غلام ہندوستانیوں سے نفرت کا منہ بولا ثبوت تھی، جسے اس نے الفاظ میں یوں ظاہر کیا کہ؛ ایک بھی انگلش گولی ضائع نہیں گئی،جتنی گولیاں چلیں اتنے ہی ہندوستانی مارے گئے “۔
کم سن بھگت سنگھ نے اس باغ سے شہیدوں کے خون میں رچی مٹی اٹھاکر ماتھے پر لگائی اور تھوڑی سی مٹی ایک شیشی میں بھر لی۔ پھر وہ جہاں بھی گیا یہ مٹی اس کے ساتھ رہی۔اور اسے کبھی چین نہ لینے دیا اور وہ سوچتا رہتا شہیدوں کے خون بھری مٹی کی خاطر وہ بھی اپنی جان قربان کر دے گا کہ اس دن اس کے لہو میں وہ ناحق بہے خون کا بوجھ شامل ہو گیا تھا۔
بھگت سنگھ بننے کا تیسرا قطرہ؛
رولٹ بل کے خلاف، گاندھی صاحب سول نافرمانی کی تحریک لے آئے۔ یہ تحریک جلیانوالہ باغ کے شہیدوں کی وجہ سے ایک ملک گیر تحریک بن گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سوئے ہو ئے ہندوستانیوں کو جگانے کا باعث بنی۔ جو 1857کی جنگ ِ آزادی کے بھیانک انجام کے بعد ایسی کسی تحریک کا خواب بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس تحریک میں خلافت اور کانگرس والے اکھٹے ہو گئے، قائد اعظم اس سب میں شامل نہ ہوئے۔
حسرت موہانی کہتے ہیں:
1921″کا وہ دور تھا جب ملک قانون شکنی کے لئے بالکل تیار تھا۔ ہندو مسلم اتحاد ہو رہے تھے اور تحریک عدم تعاون شہروں اور قصبوں سے نکل کر دودردراز دیہاتوں تک پہنچ چکی تھی”۔
جب سامراج کے خلاف یہ مزاحمت چاروں طرف پھیلنے لگی تو گاندھی نے ایک دم تحریک سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو ئے کہا” مجھے سوارج سے بو آنے لگی ہے” او”ر ستیہ گرہ کو ہمالیہ برابر بھول قرار دینا” شروع کر دیا۔ اور پھر چورا چوری کے واقعے جس میں پولیس والوں نے غیر مسلح مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی جس میں کئی زخمی اور کئی مارے گئے تھے۔جوابی کاروائی کے طور پر مشتعل ہجوم نے تھانے کو جلا دیا اور کئی پولیس والے زندہ جل کر مر گئے تھے۔ اس واقعہ کو وجہ بنا کر گاندھی نے گرفتار رہنماؤں سے یا کسی سے بھی مشورہ کئے بغیر تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ عوامی تحریک کی ایسی خود کشی تھی جس کے بعد کئی سالوں تک کسی بھی سیاسی تحریک کا دوبارہ پیدا ہو نا مشکل ہو گیا تھا۔ گاندھی کے اس فیصلے کو بزدلانہ اور منافقانہ سمجھا جانے لگا۔ بھگت سنگھ اور اس جیسے دوسرے نوجوان جو ایسی کسی مصالحت یا منافقت کو قبول نہیں کر سکتے تھے، انتہائی بددل ہو گئے۔ تیس کروڑ غلاموں کے اس دیس میں بھگت سنگھ بننے کے سارے لوازمات موجود تھے۔
بھگت سنگھ نے نیشل کالج لاہور سے انٹر کیا جہاں اسے سکھ دیو ملا۔ ان سب نوجوانوں نے مارچ1926 میں ” نوجوان بھارت سبھا “قائم کی، بھگت سنگھ اس کا سیکرٹری اور رام کشن صدرتھا، اس پارٹی کی مالی مشکلات کو حل کر نے کے لئے ڈاکے ڈالے جاتے تھے۔ بھگت سنگھ اپنے مقصد کے ساتھ اتنا جڑ گیا کہ اسے دنیا کے باقی کسی کام کا ہوش نہیں رہا۔ نوجوان جب رومان پرور خواب دیکھتے ہیں بھگت سنگھ نے آزادی کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے تھے۔
بھگت سنگھ کو جب شادی کا کہا گیا تو اس نے خط میں اپنے والد کو لکھا:
“یہ وقت شادی کا نہیں ہے، مجھے وطن پکار رہا ہے۔ میں نے عہد کیا ہے کہ تن من دھن سے ملک کی خدمت کروں گا اور پھر یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارا پو را خاندان وطن پرستوں سے بھرا پڑا ہے۔ میری پیدائش کے دو تین سال بعد 1910میں چاچا سورن سنگھ کا جیل میں انتقال ہو گیا۔ چاچا اجیت سنگھ بیرون ملک جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے بھی جیل میں بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ میں صرف آپ کے نقش ِ قدم پر چل رہا ہوں۔ آپ مجھے شادی کے بندھن میں نہ باندھیں۔۔۔”
پھر باپ نے دادی کی خواہش کا واسطہ دیا۔۔
جس کے جواب میں بھگت سنگھ نے لکھا؛
محترم والد صاحب!
آپ کا خط پڑھ کر مجھے حیرانی ہو ئی کہ آپ جیسا محب وطن اور بہادر شخص بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے متاثر کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک آدمی کا کیا حال ہو گا؟ آپ دادی کی فکر کر رہے ہیں لیکن یہ خیال نہیں کر رہے کہ ہم 33کروڑ افراد کی ماں۔۔مادر ِ ہند کتنی تکلیف میں ہے۔ ہمیں اس کے لئے سب کچھ قربان کر نا ہو گا۔۔۔ “
بھگت سنگھ کو پتہ تھا س کا باپ کوئی دلیل تسلیم نہیں کرے گا اس لئے اس نے گھر بار چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اورجاتے ہو ئے ریلوے سٹیشن پر دوستوں سے کہا؛
“اگر میری شادی غلام ہندوستان میں ہو ئی تو میری دلہن موت ہی ہو گی۔ میرا جنازہ ہی میری بارات ہو گا اور باراتی ہو ں گے اس ملک کے شہید۔ “
بھگت سنگھ کانپور چلا گیا جہاں اس نے اپنے بنگالی انقلابی دوست باتو کیش دت سے بنگالی سیکھی اور قاضی نذر الالسلام کی مشہور نظم بدروہی(باغی)جو انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران لکھی تھی، گانے لگا۔۔۔ سن1924 میں کانپور میں کچھ انقلابیوں نے ایک پارٹی “ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن” بنا ئی۔ بھگت سنگھ اس میں شامل ہو گیا۔ رام پرساد کا خیال تھا کہ سب سے بڑا ڈاکو تو خود برطانوی سامراج ہے۔ جب کاکوری سازش کیس میں اسے پھانسی کی سزا ہو ئی تو ا س نے جیل سے کہا تھا کہ؛
“میری آرزو ہے کہ برطانوی سامراج تباہ ہو جائے۔۔ “
اشفاق اللہ خان کو بھی اسی کیس میں پھانسی ہو ئی تھی، وہ شاعر تھا، مرنے سے پہلے گردن پر قران بندھا ہوا تھا اور اس نے یہ شعر پڑھا؛
کچھ آرزو نہیں ہے، ہے آرزوتو یہ
رکھ دے کو ئی ذرا سی خاک ِ وطن کفن میں
یہ سب خون بھگت سنگھ کے خون میں شامل ہو ہے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ اور فلسفہ بھی پڑھنے لگا۔۔ انقلابیوں کے رومانس کے ساتھ کارل مارکس کے نظریات بھی اس کے اندر اترنے لگے۔ یہ یاد رہے کہ بھگت سنگھ کا چچا، پنجاب کی سیاست کا پہلا شخص تھا جس نے سوشلزم کی بات کی تھی اور “ہندوستان ہمارا ہے” کا نعرہ لگایا تھا۔
ایک اور قطرہ۔۔
1928
سائمن کمیشن لاہور پہنچا۔ نوجوان بھارت سبھا تقریبا سب ہی ر سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف مظاہرے کئے۔گورے ایس پی جے اے سکاٹ نے پر امن مظاہرین پر لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ اور وہ اتنے غصے میں تھا کہ بوڑھے لالہ لاجپت رائے کو خود مارنے لگا۔ لالہ جی زخمی ہو گئے اور کچھ ہی دنوں بعد ان زخموں کی تاب نہ لا کر فوت ہو گئے۔ جس سے انقلابی نوجوانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
ایچ ایس آر اے کی میٹنگ میں لالہ جی کی موت اور ہندستانیوں کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے سکاٹ کو گولی سے اڑا دینے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ کام بھگت سنگھ کے سپرد کیا گیا۔ غلطی سے سکاٹ کی بجائے سانڈرس کو مار دیا گیا۔۔ پوسٹرزپہلے سے ہی تیار تھے، سکاٹ کا نام کاٹ کر سانڈرس کر دیا گیا؛
“سانڈرس کی موت کے ذریعے لالہ جی کے قتل کا انتقام لے لیا گیا ہے۔۔ انقلاب زندہ باد۔”
“ہمیں دکھ ہے کہ ایک انسان کو مار دیا گیا۔ لیکن یہ شخص ایک ظالم، قابل ِ نفرت غیر منصفانہ نظام کا حصہ تھا اور اس کو مارنا ضروری ہو گیا تھا۔انقلاب کی قربان گاہ کو لہو سے دھونا بھی لازم ہے۔ ہمارا مقصد ایک ایسا انقلاب لانا ہے جو انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم کر دے گا۔”
بھگت سنگھ کسی بھی قسم کے مذہبی یا صوبائی تعصب کا شکار نہیں تھا۔۔ وہ تمام ہندوستانیوں کی آزادی کے لئے سرگرم تھا۔ جس دن اسمبلی میں مزدور یونینوں پر پابندی لگانے والے دو غیر انسانی بلز منظور ہو ئے، اسی دن بھگت سنگھ اور بی کے دت نے اسمبلی میں ہالی سیٹوں کے اوپر بم پھینکے۔ (جیتندر داس ایک بنگالی بم بنانے میں مہارت رکھتاتھا، وہ ان کا ساتھی تھا اور ایسے بم بنایا کرتا تھا جو بعد میں جیل میں 62دن کی بھوک ہڑتال کے بعد مر گیا تھا)۔
“بہروں کو سنانے کے لئے دھماکہ ضروری ہے۔۔” فرانسیسی انقلابی کے یہ الفاظ دہرائے گئے۔ دلی مرکزی اسمبلی میں کئے جانے والے ان دھماکوں میں یہ خیال رکھا گیا کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو اور اسی وقت دونوں نے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے جیل، پولیس،اورعدالتوں کو سامراج کے خلاف آواز اٹھانے کا ذریعہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔جیل میں جب ہندوستانی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کو دیکھا تو ان سب انقلابیوں نے بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ تاریخ کی سب سے لمبی بھوک ہڑتال کی گئی، جس کا عرصہ سو دن سے بھی زیادہ ہے۔ عدالت کو اسی کی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے استعمال کیا گیا۔جب بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی تو بھگت سنگھ کے والد نے وائسرائے سے رحم کی اپیل کی جس پر بھگت سنگھ ناراض ہو گیا۔ اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ مجھے جلد از جلد پھانسی دے دی جائے تاکہ میں جو انقلاب کا استعارہ بن چکا ہوں، زیادہ دیر زندہ رہا تو کہیں مدہم نہ پڑ نے لگ جا ؤں۔
“کسی اور کو زخمی کر نے کی بجائے ہم جلد ہی انسانیت کی خاطر اپنی جان قربان کر دیں گے۔۔”
قائد اعظم نے ان کی بھوک ہڑتال پر اسمبلی میں کہا “بھوک ہڑتال سے مرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، بھوک ہڑتالی کا بھی ضمیر ہو تا ہے۔” بھوک ہڑتال کو ختم کر نے کے لئے مختلف غیر اخلاقی حربے آزمائے گئے مگر وہ دھن کے پکے جو جوانی کے تمام جگنو، گلاب اور خواب چھوڑ کر، اپنے تمام رشتوں کو بھول کران مشکلات کا سامنا کر رہے تھے،انصاف کی اس جنگ میں ہر سطح پر لڑ رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ سیاسی قیدیوں والا سلوک کیا جائے۔۔ اور بنیادی ضرورتیں مہیا کی جائیں۔۔
اب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی اپنی خود اعتمادی اور جرات مندی کی وجہ سے، ہندوستانی نوجوانوں کے ہیرو بن چکے تھے۔ 7اکتوبر 1930کو بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اور انہیں لاہور سنٹرل جیل کے پھانسی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس فیصلے کا سب کو پہلے سے ہی علم تھا۔ اوران انقلابیوں کو بھوک ہڑتالیں کرتے، دھماکے کرتے، ڈاکے ڈالتے، مظاہرے کرتے بہت پہلے سے پتہ تھا کہ موت ہی ان کی منزل ہے۔ ملک بھر میں اس سزا کے خلاف مظاہرے ہو نے لگے۔ برطانیہ کا ڈائریکٹر آف ایٹیلی جنس سر حوریس ویلیم سن اپنی کتاب انڈیا اور کمیونزم میں بھگت سنگھ کا ذکر کرتے ہو ئے لکھتا ہے؛
“بھگت سنگھ نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ قیدیوں کا کٹہرہ ایک سیاسی پلیٹ فارم بن گیا تھا اور سارا ملک اس کے کارناموں سے گونج رہا تھا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں اس کی تصویریں بک رہی تھیں۔ وہ اپنی مقبولیت میں گاندھی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ “
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی پھانسی کے حکم پر سر عبدالقادر اور ڈنشا ملا نے دستخط کئے تھے۔ کرپال سنگھ غدار، جو غدر پارٹی میں شامل ہو چکا تھا، کی مخبری کی وجہ سے کرتار سنگھ وطن واپسی پر پکڑا گیا تھا۔ دلی اسمبلی میں بم دھماکے کے بعد جب بھگت سنگھ کی پارٹی کے باقی ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا تو ان کے ہی انقلابی ساتھی جے گوپال اور ہنس راج وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔ اس بات میں کوئی شکی نہیں کہ ان غداروں کی منافقت اور مصالحت نے غلامی کے دور کو طویل کیا۔ اور آج بھی ایسے غداروں کی کمی نہیں۔ اس میں کچھ لوگ” گاندھی اروین” معاہدے کا ذکر بھی کر یں گے۔ کہا جاتا ہے کہ وائسرائے سے گاندھی نے صرف سول نافرمانی کی تحریک میں گرفتار قیدیوں کی رہائی کی بات کی تھی۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی پھانسی معافی کی یا تو بات کی ہی نہیں کی گئی، یا انہیں جلد از جلد پھانسی دینے کامطالبہ کیا۔۔ بہرحال کانگرس کے اپنے تاریخ دان ڈاکٹر جی پٹا بھی ستیا رمیا انڈین نیشنل کانگرس کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ؛
“گاندھی جی نے خود وائسرائے سے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ اگر ان لڑکوں کو پھانسی دی جاتی ہے تو بہتر ہو گا کہ انہیں کانگرس کے سیشن کے بعد پھانسی پر لٹکانے کی بجائے پہلے ہی لٹکا دیا جائے۔ اس سے ملک میں ہو نے والے رد ِ عمل کی حیثیت واضح ہو جائے گی۔ عوا م کے دلوں میں کوئی جھوٹی امید نہیں رہے گی۔ کانگرس میں گاندھی اروین سمجھوتہ اپنی خوبی کی بنا پر پسند ناپسند ہو گا اور اس بات کو دھیان میں رکھتے ہو ئے کہ تینوں لڑکوں کو پھانسی دے دی گئی ہے “۔(عدم تشدد کے فلسفے کے پرچارکار نے کپیٹل پنیشمنٹ کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ کیا واقعی وہ بھگت سنگھ کی شہرت سے خوفزدہ تھے؟
سبھاش چندر بوس اپنی کتاب انڈین اسٹرگل میں لکھتے ہیں؛
“مہاتما گاندھی پر ان نوجوانوں کی زندگی بچانے کی کوشش کر نے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔۔ سین فین پارٹی نے سخت رویہ اپنایا تھا اور پھانسی کے سزا یافتہ ایک آئرش قیدی کو رہا کرایا تھا۔ مگر مہاتما گاندھی جو بذات ِ خود انقلابی قیدیوں کے ساتھ رابطہ رکھنا پسند نہیں کرتے تھے اس حد تک نہیں جانا چاہتے تھے۔۔ جس سے وائسرائے کو اندازہ ہو گیا کہ بھگت سنگھ کی وجہ سے ان کے مذاکرات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا تو اس بات سے بہت فرق آیا۔۔”
بھگت سنگھ کو کانگرس یا دوسری سیاسی پارٹیوں کے دوغلے رویے کا اندازہ تھا جو در پردہ سرمایہ کاروں کے مفادات کی حفاظت کرتی تھیں، عام لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ ان غریبوں کو اپنے فائدے کے لئے جلسے جلوسوں میں استعمال کر کے سرکا ر پر دباؤ ڈال کر اپنے فائدے حاصل کئے جا تے تھے۔ اسی لئے بھگت سنگھ نے اپنے آخری دنوں میں نوجوانوں کے نام خط میں لکھا:
“انقلاب سے میرا مقصد موجودہ نظام اور ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس کام کے لئے ہمیں حکومت کے اقتدار کو حاصل کرنا ہو گا۔ جو اس وقت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے۔ عام لوگوں کی بھلائی اور اپنے آدرشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمیں اقتدار کی مشین کو مارکس کے اصولوں پر پرکھنا ہو گا۔ یہی ہماری جد وجہد کا مقصد ہے ۔”
یاد رہے بھگت سنگھ کی جد وجہد یا انقلاب کا تصور فقط برطانوی سامراج سے آزادی تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ انسان کو انسان کے جبر سے بچانے کی جنگ میں شامل تھا۔ وہ لادین ہو چکا تھا۔ اسے پھانسی سے پہلے کہا گیا کہ مذہبی ہو جاؤ اس نے کہا یہ تو بہت ہی گھٹیا پن ہو گا اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں پہلے تکبر اور خود نمائی کی وجہ سے دہریہ تھا اور اب خوف سے مذہبی ہو جاؤں۔ اس نے کہا ہندو کو اگلے جنم کا لالچ ہے اور مسلمان عیسائی کو موت کے بعد کی زندگی کے حسین انعامات کے خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن میرا موت کو گلے لگانا زیادہ جرات مندانہ قدم ہے کہ مجھے ان سب باتوں پر یقین نہیں اور میری موت کے ساتھ ہی اس ایک زندگی کا سفر ختم ہو جائے گا۔
بھگت سنگھ نے سرکار سے جو واحد اپیل کی وہ یہ تھی کہ ہمیں پھانسی نہ دی جائے بلکہ گولیوں سے اڑایا جائے جیسے جنگی قیدیوں کے ساتھ ہو تا ہے۔ مگر افسوس ظالم سرکار نے اس کی یہ خواہش بھی پو ری نہ کی۔لاہور سنٹرل جیل جہاں اب شادمان چوک ہے، وہاں اسے 23مارچ 1931شام سات بجے باقی دو ساتھیوں کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔ حالانکہ اس زمانے میں پھانسی صبح سات بجے دی جاتی تھی مگر اس دن یہ قانون بھی توڑ دیا گیا۔ بھگت سنگھ کے ہاتھ میں لینن کی کتاب تھی۔ پھانسی کے وقت اس کی عمر ساڑھے تئیس سال تھی۔
پھانسی کے بعدجیل کی پچھلی دیوار توڑ کر لاشوں کو دریائے ستلج کی طرف لے جا یا گیا اور انتہائی عجلت میں ادھ جلی لاشوں کو دریا برد کر دیا گیا۔ گاؤں والوں کو خبر ہو ئی تو لاشوں کو نکال کر ان کا باقاعدہ سنسکار کیا گیا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے کہا تھا کہ انقلاب کے مقتل میں وہ اپنی جوانی لوبان کی مثل لے کر آئے ہیں۔ لائلپور کے چھوٹے سے بنگاگاؤں میں ایک انقلابی خاندان میں پیدا ہو نے والے، لاہور کے کالج میں پڑھنے اور اسی لاہور کی جیل سے غاصب سرکار کے خلاف سیاسی جنگ لڑنے والے کو اسی لاہور نے پھانسی کا تحفہ دیا۔ آج لائلپور اور لاہور دونوں پاکستان کی ملکیت ہیں مگر بھگت سنگھ کو اس کی اس آزادی کی جد وجہد جو اس نے ہر انسان کے (نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر) بنیادی حقوق کے حصول اور معاشی آزادی کے لئے لڑی تھی، کے باوجود ہم نے ملک بدر کر دیا ہے۔آزادی کی یہ جنگ اپنا راستہ بھول گئی یا شروع سے ہی اس کے مسافر دوراستوں کے راہی تھے؟ ایک بھگت سنگھ کا معاشی برابری کا سوشلزم کا راستہ اور ایک کانگرس، مسلم لیگ جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کا سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کا راستہ؟ بنگا گاؤں میں لوگوں نے اپنے خون سے لکھا تھا کہ ہم شہید کی موت کا انتقام لیں گے۔۔۔ مگر یہ کیسا انتقام تھا جو قاتلوں سے تو نہیں لیا گیا مگر
خود سے ہی بار بار لیا جاتا رہا ہے۔۔ جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پھر پاکستان تقسیم ہوا تو بنگالی جیتندر داس، پنجابی بھگت سنگھ اور یو پی کا چند ر شیکھر آزاد سب ایک دفعہ پھر پھانسی پر چڑھ گئے۔۔ سرمایہ دار گوری چمڑی سے نکل کر بھوری کھال میں گھس کر مجبور عوام کی پیٹھ پر اسی طرح کوڑے برساتا ہے۔۔ کوڑوں کی شکلیں بدل جاتی ہیں، مگر پیٹھ کے زخم وہی ہیں۔۔۔ بالکل ویسے۔۔ غلامی کی شکل بدل گئی ہے مگر غلام وہی ہیں۔۔ ویسے کے ویسے۔۔۔