روبینہ فیصل کنیڈا

pexels-photo-756790
روبینہ فیصل 
کنیڈا
ڈاکٹر خواجہ اکرام صاحب، جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے چئیر مین اور اردو رولڈ ایسوسی ایشن کے روح رواں اور گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر افضال بٹ نے کرونا کے ان گھٹن ذدہ دنوں میں ایک بین الاقومی اردوکانفرس کا انعقاد کروایا۔ دو روزہ اس کانفرس میں سیکھنے کو بہت کچھ ملا اور جس خوبصورتی سے نظامت اور باقی معاملات نبٹائے گئے، وہ قابل ِ ستائش ہے۔ مختلف مملک سے انتہائی قابل فاضل دوستوں سے ورچئیول ملاقات بھی ہو گئی اور کانفرس کی خوبصورتی کو چار چاند بھی لگ گئے۔ اردو ایک زندہ زبان ہے اور یہ مستقبل میں بھی زندہ رہے اس کے لئے ایسی کانفرسیں، مشاعرے اور ادبی تقریبات کا منعقد ہو تے رہنا ضروری ہے۔  ڈاکٹرخواجہ اکرم صاحب، جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے چئیرمین اس معاملے میں بہت متحرک ہیں، اور خاص بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں ہر جگہ اردو بولنے والوں کو ایک برادری کہتے ہیں۔ اور اپنی اس برادری کو وہ بہت لگن سے جوڑے ہو ئے ہیں۔
 ۔ میں اپنا مقالہ آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کرتی ہوں۔ 
 اردو ادب اور کینڈا میں اردو افسانہ؛ ایک جائزہ۔
ادب کسی بھی زبان میں ہو اور اس کی کو ئی بھی صنف ہو اس کا مقصد ایک ہی ہو تا ہے جیساکہ نامور افسانہ نگار پریم چند نے اپریل 1936 کو انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے کی صدارت کرتے ہو ئے کہا تھا کہ؛”
ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو۔ جس کی زبان پختہ، شستہ اور لطیف ہو اور جس میں دل و دماغ پر اثر ڈالنے کی صفت ہو،اور ادب میں یہ صفت کامل طور پر اس حالت میں پیدا ہو تی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربے بیان کئے گئے ہوں۔”
 اورارسطو نے کہا تھا روح تین سطحوں پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ پہلی سطح نباتات کی ہے، جہاں محسوس کرنے کا عمل ہی اس کا نمایاں ترین ثبوت ہے۔ دوسری سطح حشرات الارض کی ہے جہاں محسوس کرنے کے علاوہ حرکت کرنے کا عمل ایک اضافی وصف کے طور پر موجود ہے۔تیسری سطح، انسان کی ہے جہاں محسوس کرنے اور حرکت کرنے کے علاوہ، سوچ بچار کا عمل بھی موجود ہے۔ اور یہ ادب ہی ہے جو سوچ کی کھڑکی کو کھولتا ہے کہ زندگی محض مادی وسائل کے حصول کا نام نہیں، اس کا مقصد روح کا نکھار، تہذیبی رفعت اور تخلیقی سطح پر زندہ رہنابھی ہے۔۔۔جب فنکار،خیال یا وژن کو اپنی ذات کے ایک حصے سے حاصل کر کے دوسرے تک پہنچا دیتا ہے تو ابلاغ مکمل ہو جاتا ہے۔وزیر آغا نے اس اجتماعی ذہن کو جو قارئین کے بطون میں چھپا ہو تا ہے، زمانے کا نام دیا ہے۔ ذات کا اسرا رہو یا زمانے کا یہ آرٹ اور ادب کے واسطے سے ہی منکشف ہو تا ہے۔ 
ادب کا زندگی کے ساتھ بڑا گہر ا رشتہ ہے، کہ یہ اس کا آئینہ بھی ہے اور اس کا میک اپ بھی، مطلب ادب آپ کو زندگی کی تصویردکھاتا ہے تو اس زندگی کو بہتر بنانے کی تدبیر بھی بتاتا ہے۔ اسی لئے ادب کا فروغ، ذہنی اور دماغی قوتوں کا فروغ ہے اور قوموں کی ترقی اسی میں پوشیدہ ہے۔ فیض احمد فیض کے الفاظ میں:
“ادب و فن صرف تفریح کا ذریعہ نہیں،وہ ہماری قومی زندگی کا حصہ ہیں۔قومی زندگی کے لئے صنعتی ترقی،نہریں،سڑکیں،سبھی ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ادب و فن کا ارتقا بھی ضروری ہے۔ہم نے ابھی تک ایک آزاد قوم کی طرح اس کو وہ اہمیت یا مقام نہیں دیا،جس کا وہ مستحق ہے”       فیض احمد فیض (متاع ِ لوح و قلم)
 برنڑنڈرسل کہتا ہے: ہم کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں یہ بات ہم سائنس سے سیکھتے ہیں مگر ہمیں کیوں زندہ رہنا چاہیئے؟ یہ راز ہمیں ادب بتاتا ہے۔ اور ذرا سوچیئے زیادہ تر لوگ اس “کیوں “کے بغیر ہی جیے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے اس” کیوں “کی تلاش میں جو ادب تخلیق ہو تا ہے اس کے اظہار کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ کبھی اسے شاعری میں تو کبھی داستان میں، کبھی ناول میں اور کبھی افسانے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ ایک ادیب کی معاشرے کی طرف ذمہ داریاں ایک عام انسان سے زیادہ ہو تی ہیں، اس کا نقطہ نظر زیادہ پختہ ہو نا چاہیئے کہ وہ زیادہ باشعور ہو تا ہے اور اسے عام لوگوں کو معاشرے کا بلیو پرنٹ دکھانا ہو تا ہے۔  
جس طرح قرون ِ وسطی کے یورپ کا ادب، عام لوگوں کی سمجھ سے بالاترمردہ زبانوں میں تھا اسی طرح ہند کا کلاسیکی ادب اور فلسفہ سنسکرت میں تحریر کیا گیا۔ چھال کے صفحات کو رسی میں پرو کر کتاب کی شکل دے دی جاتی اورکتب خانوں میں رکھا دیا جا تا تھا۔ وید ک عہد کا ادب لکڑی کا تھا۔۔۔تحریر سے دور،تقریر کے قریب۔ چھاپہ خانہ مسلمانوں کے ساتھ ہند میں آیا۔ اور جب سلطنت ِ ہندمغلوں کے ہاتھ لگی تو وہ جنگ اور شاعری کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا جانتے تھے۔ گو کہ اس وقت مسلم تعلیم، انفرادی تھی جو صرف اشرافیہ کے حصے میں، نجی معلمین کی صورت ملتی تھی اورعام لوگوں تک تعلیم کی رسائی نہیں تھی مگر پھر بھی اس زمانے میں شاعری خوب پھلی پھولی۔ اور پھر یہ مشاعرے،ہندوستان کی تہذیب کا حصہ بن گئے، اور آج تک ہیں۔ شاہجہاں کے دور حکومت میں اردو کو عوامی سے ادبی درجہ بھی مل گیا تھا۔ بعد میں فارسی زبان  وادب کے فروغ کی کوششیں ہوئیں اوربرطانوی عہد میں انگریز نے اردو کو مزید فروغ دیناشروع کر دیا تھا۔ 
ادب مختلف دور میں مختلف حالتوں میں موجود رہا ہے جیسا کہ یو نانیوں کے ہاں، ہمیں داستانیں ایلیڈ اور اوڈیسی کی شکل میں ملتی ہیں اور ہندوستان میں گلی کوچوں کے افسانوں کو نسل در نسل دیو مالاؤں کی شکل دے دی گئی تھی۔ مہا بھارت، ایشیا ء کا عظیم ترین تخیلاتی فن پارہ قرار دیا گیا ہے۔ کچھ محققین، اسے ایلیڈ سے عظیم تر نظم کہتے ہیں۔ گیتا، عالمی ادب میں فلسفے کی عالی مرتبہ نظم ہے۔اسے ویدوں کے بعد سب سے زیادہ تکریم دی جاتی ہے۔ اسے حقیقی فلسفی گیت بھی کہا جا تا ہے۔ ہند کی دوسری مشہور ترین داستان رامائن ہے۔ جو مہابھارت کی نسبت، مغرب والوں کو زیادہ آسانی سے سمجھ آجاتی ہے اور یہ نسبتا مختصر بھی ہے۔ رام اور سیتا، شاید افسانوی کردار ہیں مگر اولیسس اور پینی لوپ کی طرح زندہ انسانوں کی عکاسی کرتے ہیں۔افسانہ کا بنیادی موضوع بھی انسان ہے،چاہے وہ درخت، پرندے،کیڑے، یا جانور کی شکل میں ہو مگر جب افسانے میں آئے گا تو انسانی اوصاف لے کر آئے گا۔ 
افسانہ ہے کیا؟ 
 وحدتِ تاثر،رمزیت اور مواد کی ترتیب۔
ہر صنف کے کچھ فنی لوازم ہو تے ہیں اور یہی لوازم، اسے ودسری اصناف سے الگ کرتے ہیں۔ شروع میں نئے لکھنے والے ایک تجر بہ کرتے ہیں اور کامیاب ہو نے کی صورت میں، وہ تجربہ روایتوں میں شامل ہو نے لگتا ہے۔ بر صغیر میں اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا بیسیوں صدی میں ہو ئی۔دنیا میں، انیسویں صدی عیسوی کے دور ِآخر سے قبل افسانے کا کوئی الگ سے وجود نہیں ملتا مگر انگریزی شاعری میں بیلیڈ کی صنف میں افسانہ ملتا ہے اور برصغیر میں اس طور دیکھیں تو مختصر افسانہ، سرشار کے فسانہ ٗ آزاد اور میر امن کے باغ و بہار میں ملتا ہے۔ 
پریم چند سے افسانے کی باقاعدہ روایت قائم ہو ئی۔اور اُس وقت افسانہ لکھنے والوں میں راشد الخیری،آغاز سلطان حیدر جوش، پریم چند، سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پو ری کے نام قابل ِذکر تھے۔ 
 اردو زبان میں  1903  سے1930 تک کو افسانے کا پہلا پڑاؤ کہا جا سکتا ہے۔ انگارے کی اشاعت کی بعد انقلا بی افسانے کا جنم ہوا۔ جس کے بعد 1936 میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ جس کا بنیادی مقصد سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان کشمکش، انسانیت کے حق میں اور ناانصافی کے خلاف ٓواز اٹھانا تھا۔ اُس وقت ادب میں ترقی پسندی کی تحریک، سماجی شعور، طبقات کا استحصال، ایک بہتر مادی زندگی کا خواب تھی، ایک انقلاب۔مگر پھر جب افسانہ پروپیگنڈا بننے لگا  تو باشعور ادیبوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی اور پھر اس طرح ترقی پسندی، کے بعد جدیدیت کا دور آیا،  جسے وجودیت کی تحریک کہہ سکتے ہیں۔ انفرادیت اور فرد کی زندگی پر توجہ مرکوز کی جانے لگی۔ پھر ادیبوں نے اپنے اندر کی کھدائی کی تو زمانوں کی راکھ بھی ساتھ ہی بر آمد ہو نے لگی۔۔ پھر پتہ چلا کہ ادب وقتی انتشار یا انقلاب کا نام نہیں۔ اس طرح روحانی ارتقاء، بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ادب میں شامل ہوگیا۔بر صغیر کے ادب پر عالمی یا مغربی اثرات آگے پیچھے چلتے ہیں۔  بیسیوں صدی میں، دوسرا آدمی، یا اس کی اپنی پر چھائیں، افسانے اور شاعری دونوں میں آگئی تھی۔
جدیدیت میں علامتوں کی بھرمار ہو نے لگی تواس وجہ سے کہانی، ادیب اور قاری سے بچھڑنے لگی۔ 1970کے بعد جسے مابعد جدیدیت کا دور کہتے ہیں، اس میں افسانہ کہانی کی طرف لو ٹنے لگا۔ اور جہاں جہاں اردو افسانہ لکھا جانے لگا، وہاں وہاں کا کلچر پرسنالٹی (زبان و لہجہ) اپنانے لگا۔ایک افسانہ نگار، نکتے کو پھیلا کر کائنات پر بھی محیط کر سکتا ہے اور پوری کائنات ایک نکتے میں بھی سمیٹ سکتا ہے۔ ایک افسانہ نگار حقیقت اور خواب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ موضوعات اور حالات اپنے اردگرد سے بھی اٹھا سکتا ہے اور کہیں دور کے کسی دیس سے یا کسی واقعہ سے یا کسی خبر سے یا ماضی کے کسی دریچے سے۔انتظار حسین کا پہلا افسانہ ان کا کالم تھا۔ 
  دوستوفسکی کا مشہور ِ زمانہ ناول،جر م و سزا، بھی ایک خبر کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ سو تخلیق کار کی تخلیق کسی زمان کسی مکان میں قید نہیں ہو تی ہاں وہ کسی بھی زمان یا مکان کی عکاس ہو سکتی ہے اور جو تحریریں زمانوں کو اور سرحدوں کو پار کر کے سب کے لئے قابل ِ فہم اور ان کی زندگیوں کی عکاس بن جائیں، وہی ادب میں اعلی مقام پاتی ہیں اور دیر پا ہو تی ہیں۔ وقتی جذبات، یا وقتی آفات کو الفاظ میں ڈھال بھی دیا جائے، معنی بھی پہنا دئیے جائیں لیکن وہ ایک ادبی بلبلے کے سوا کچھ نہیں ہو تا۔ 
افسانہ نگار اپنے ماحول کا عکاس ہو تا ہے اور جیسے کہ شکئیسپئر نے کہا تھا میں قلم پکڑتا ہوں اور اپنا دماغ لکھنے لگتا ہوں اور بیرونی کےساتھ ساتھ اندر کی دنیا کو بھی کدال سے کھودتا ہے اور باہر نکالتا ہے۔ ماحول ادیب میں جذب ہو تا ہے یا ادیب کے اندر کا ماحول باہر نکل کر خود ماحول کا حصہ بنتا جا تا ہے۔دونوں صورتوں میں راستہ تخلیق کی طرف ہی جا تا ہے اور اس راستے سے انسانی شعور کے ارتقا کا راستہ۔ 
برصغیر کے اردو ادب میں مہجری ادیبوں کا ایک اہم مقام ہے مگر اس کو تسلیم کیسے کرنا ہے اور برصغیر کی مین سٹریم میں ان کے تخلیق کردہ ادب کو کیسے شامل کر نا ہے، اس سوال پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔اور وہ ساؤتھ ایشئین ادیب جو سرحدوں سے بالاتر اردو ادیب ہی ہیں کہ وہ غیر ملکی زبانوں میں بھی لکھ سکتے تھے مگر انہوں نے اردوکو اپنا کر اردو ادب کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے۔ اب دنیا میں جہاں جہاں اردو لکھنے والے شاعر اور ادیب ہیں،وہ وہاں کے مقامی حالات کو ذاتی تجربے اور مشاہدے سے لکھتے ہیں اور اس طرح صرف برصغیر کے حالات اور واقعات کی بجائے، اردو ادب، دنیا بھر کی تاریخ، رسم و رواج، حالات، ثقافت اور واقعات کو بھی اتنی ہی آسانی سے اپنے اندر سمو رہا ہے۔ ادب کو سرحدوں اور زمانوں کی قید سے نکلنا پڑتا ہے۔ ادب کی اصناف کی اپنی ارتقا کے ساتھ انسان کی سوچ کا عمل بھی چلتا رہتا ہے۔ اس طرح ہیئت اور موضوع دونوں کا ارتقائی عمل چلتا رہتا ہے۔ 
اگرکینڈا میں اردو ادب کی بات کر یں تو اس کا سفر جاری ہے۔ رکا نہیں ہے۔۔ ایک انسان کے ذاتی حالات اور خیالات ہوتے ہیں اورایک جہاں وہ رہ رہا ہو تا ہے وہاں کے اجتماعی حالات اور خیالات،ان دونوں کے ملاپ سے جو واقعات ظہور پذیر ہو تے ہیں، ان سب کو الفاظ میں قید کر نے والا ادیب یا شاعر اگر دونوں جہانوں کا باسی ہو تو ایک منفرد ادب تشکیل پا تا ہے۔پاکستان، انڈیا یا بنگلہ دیش میں بیٹھا کوئی ادیب کتنا ہی اچھا لکھاری کیوں نہ ہو، وہ کینڈا کی کہانی پاکستانی کینڈین رائٹر سے زیادہ بہتر نہیں لکھ سکے گا۔ کیونکہ ہڈ بیتی اور جگ بیتی ایک جگہ اکھٹی ہوجائیں اور لکھنے کا ہنر بھی آتا ہو تو، ادبی پارہ شاہکارہوسکتا ہے۔
ایک بالکل مختلف دنیا اور اس کے مختلف چیلنجز ہونے کے باوجود کینڈا کے شاعروں ادیبوں نے لکھاتو صرف سر سے نہیں اتارا یا ثقافت اور زبان کی رسم کو ہی نہیں نبھایا بلکہ خوب لکھا۔ یہاں میں کینڈا کے کچھ قابل ِ ذکر افسانہ نگاروں کے نام لوں گی۔۔۔  لیکن اس سے پہلے یہ بھی بتاوں کہ جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی، نئی دہلی میں مہجری ادب پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے ان میں کنیڈا پر بھی کام ہوا ہے خاص طور پر   مہوش نور اور شبانہ خاتون کے مقالے قابل ذکر ہیں۔ ان کے مطابق، اکرام بریلوی،سلطان جمیل نسیم،رضاء الجبار،کرامت غوری، شکیلہ رفیق،معین اشرف، عابد جعفری،مظفر اقبال، رحیم انجان،خالد سہیل، بلند اقبال اورروبینہ فیصل(اپنا نام ہندوستان کی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی مقالہ لکھنے والے بچوں کی ریسرچ میں دیکھنا کتنا باعث ِ مسرت ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے) کے نام خصوصی طور پر لیے گئے ہیں۔مگر اس میں کچھ اور افسانہ نگاروں کے نام شامل نہیں ہیں، اس کی وجہ شائد ان، کا افسانہ کم کم لکھنا ہے۔ 
رفیع مصطفے صاحب، افسانہ نہیں لکھتے لیکن ناول، جو کہ نثرکی سب سے اہم قسم ہے، اس میں ایک بہت اہم ناول جو دوہجرتوں کو لپیٹے ہو ئے ہے،اسے اردو انگریزی دونوں زبانوں میں لکھ چکے ہیں اس لئے اردو ادب کینڈا میں، اس ناول کا بھی ایک مقام ہے۔ 
ایک سمارٹ فون میں سمٹ جانے والی دنیا یوں تو صرف جہازوں اور بحری جہازوں کا پیٹ بھرنے کو، جسمانی طور پر سرحدیں پار کر لیا کرتی تھی، ان وبائی دنوں میں پھر سے ایک کوزے میں بند ہو گئی ہے،جہاں وہ کہیں آئے جائے بغیر خود ایک مکمل دریا بن چکی ہے۔دیکھا جائے تو دنیا کے وسائل ایک دوسرے کے محتاج ہو ئے تو اس کے مسائل آپس میں جڑ گئے تھے اور پھر ان کے حل بھی اکھٹے تلاش ہو نے لگے۔ میکسم گورکی نے کہا تھا کہ” انسان کے ماحول کے ٹکراؤ سے ہی انسان کی تشکیل ہو تی ہے.” اور پھر آپس میں تہذیبوں کے ٹکراؤ  سے ایک نئی حقیقت جنم لیتی ہے، اور اسی سے سوچ کے ٹھہرے پانی میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے اور یہی ارتعاش ارتقا کی پہلی منزل ہے اس پس ِ منظر میں دیکھیں توکینڈا کا اردو افسانہ نگار، اپنے کینوس پر اپنا ماضی، اپنے حال میں ڈھالتے ڈھالتے مستقبل کی ایک نئی تصویر بنا رہا ہے۔ اور وہ اردو ادب میں ایک ایسا مواد شامل کر نے کا باعث بن رہا ہے جو کے اس کے قاری کو کینڈا میں پچاس سو سال بعد یہاں کے عام لوگوں کی تاریخ جن میں ان کے مسائل، وسائل، کشمکش، طر ز ِ حیات، مذہبی روایتوں سے آشنا کر ے گا۔ اگر آج یہاں کا بیٹھا ادیب اپنے اس منصب کو پہچان لے اور اردو ادب سے جڑے مخدوش مالی حالات، پبلشرز کے چیلنجز، قاری کی وقتی دستیابی اور فوری حوصلہ افزائی کی کمی کو بھول جائے تو بر صغیر کے ا ردوادب میں بیرون ملک ادیبوں کا ایک الگ مقام متعین ہو جائے گا۔ 
کنیڈا کے افسانہ نگاروں کا  اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں کے فکشن نگاروں نے زبان و اسلوب اور موضوع و ہیئت  دونوں اعتبار سے اس صنف کو کافی آگے بڑھایا ہے۔ ان میں زندگی کے کئی رنگ شامل ہیں جو مشرق و مغرب کے درمیان کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔