پاکستان آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے نام کھلا خط!
محترمی و مکرمی جرنیل و حافظ صاحب!
پاکستان کی روایت ہے کہ جب کوئی شخص جنرل بھی ہو اور حافظ بھی ہو تو آرمی چیف بنتے ہی فسطائیت کا وہ بازار گرم کرتا ہے کہ شیطان بھی اس سے پناہ مانگتا ہے۔اس سے زیادہ اسلام اور پاک فوج کی فتح اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ ہمیں فخر ہے کہ آپ نے پاکستان کی اس روایت کو یوں برقرار رکھا کہ ہم بحثیت قوم یوم آزادی یوں منا رہے ہیں جیسے کوئی جرم کر رہے ہیں۔ سینے میں قران پاک کو محفوظ کر کے اور فوج کی کمان سنبھال کر آپ خود کو ہر قسم کی پکڑ سے آزاد محسوس کرتے ہوں گے، اسی لئے تو بچہ جوان عورت بزرگ جس نے آپ سے اپنا حق مانگا اسے ہی پکڑ کر اندر کر دیا۔
جرنیل صاحب! آپ نے پاکستانی جرنیلوں کی ہی صرف تاریخ پڑھی ہے،آپ نے عام پاکستانی کو نہیں پڑھا۔ اس لئے میں آپ کو بتائے دیتی ہوں کہ پاکستان کے اندر آپ اپنی دہشت سے کمزور پاکستانیوں کو دھمکا کر اپنے حق میں نعرے لگوا سکتے ہیں مگر باہر بیٹھا،خاص کر مغربی ممالک میں بیٹھا پاکستانی، مغربی جمہوریت والے، گھٹن سے آزاد معاشروں میں بیٹھ کر اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کر نے کے لئے آزاد ہے۔ آزادی جو انسان کا بنیادی حق ہے اسے چھین کر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں انسان آزاد ہیں؟ اور جہاں انسان ہی آزاد نہ ہوں وہ ملک آزاد کیسے کہلا سکتا ہے؟
حافظ صیب!جب انگریز ریستورانوں کے باہر لکھ کر لگاتا تھا کہ” کتے اور ہندوستانی اندر داخل نہیں ہو سکتے” تو ہمارے آپ کے آباو اجداد تذلیل کے احساس سے نڈھال ہوجاتے تھے۔ وہ ایسا وطن چاہتے تھے جہاں گوری چمڑی ان کے ساتھ غلاموں والا سلوک نہ کر سکے۔ وہ جب دیکھتے تھے کہ ہماری دولت، چوری کر کے ہمارے آقا اپنے آبائی وطن تو امیر کررہے ہیں مگر ہندوستان کو کھوکھلا کررہے ہیں تو ان کے اندر اس زور زبردستی سے آزاد ہو نے کا خیال پیدا ہوتا تھا۔
جرنیل صاب!اپنے حقو ق حاصل کرنے کی لڑائی میں پہلے متحدہ ہندستان کی انگریز سے آزادی اور پھر پاکستان بننے کے خواب تک راستے میں کئی مراحل آئے،قوم اس فرد واحد کے ساتھ جڑ گئی تھی جس کے سینے میں اپنے لوگوں کا احساس دھڑکتا تھا، جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف اپنی آنے والی نسلوں کے حقوق کے لئے بر طانوی اور ہندو طاقتوں سے بھِڑ گیاتھا۔
جرنیل صاب! آپ نے کبھی وہ تصویریں غور سے دیکھی ہیں جن میں کہیں کسی عورت کی چھاتیاں کٹی پڑی ہیں،اور کہیں ننھے ننھے بچے مردہ ماؤں کے سینوں سے دودھ پینے کی کوشش کررہے ہیں اور کہیں ماؤں کے سامنے بچے نیزوں پر چڑھے ہو ئے ہیں اور کہیں جوان بے گور قطاروں میں پڑے گدھوں کی غذا بن رہے ہیں، کہیں کسی بچی کو بوڑھا باپ کندھوں پر اٹھائے سرحد پار کررہا ہے اور کہیں بیٹے باپ کو چادر سے باندھے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔۔ کبھی اس زمانے کے دل ہلا دینے والے مناظر کی تصویر کشی مارگریٹ بورکی وائٹ(برطانوی فوٹوجرنلسٹ)کی کتاب میں دیکھئے، الفاظ کے بغیر صرف چہرے پڑھئیے، مردہ ہیں یا زندہ مگر ان سب کی آنکھیں ایک خواب سے چمک رہی ہیں۔۔اور وہ خواب ہے آزادی کا۔۔
حافظ صیب! آپ جانتے ہیں آپ اور آپ سے پہلے آنے والے جر نیلوں نے کس طرح اس نسل کی اور اس کے بعد آنے والی نسلوں سے آزادی کا خواب چھین لیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کیسے آپ نے اس ملک کے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے جس کے وسائل سے بیرونی قبضہ چھڑوانے کے لئے اس نخیف شخص نے اپنی جان تک وار دی تھی۔
جرنیل صاب! سب کچھ ہو گیا تھا، مگر یہ تو نہ ہونے دیتے جو اب ہورہا ہے۔ زندگی میں پہلہ دفعہ احساس ہوا کہ ہمارا کوئی ملک نہیں۔آپ کے پاکستان میں ظہور سے چند سال پہلے ایک خالصتانی نوجوان نے مجھے کہا تھا؛”پین جی تسی کینے لکی او کہ تہاڈا بیک ہوم ہے گا، اسی تے کینیڈا تو ہندوستان نہیں جا سکدے” اور میں نے تب دل میں شکر کیا تھا کہ ہمارا “بیک ہوم “ہے لیکن یقین جانئیے، آج میں اس سکھ نوجوان سے بھی زیادہ بُری پوزیشن میں کھڑی ہوں۔
سر!دوحہ کی ایک انڈین آرگنائزیشن نے مجھے، میری ناول نارسائی اور دوسری ادبی کاوشوں پر ایوارڈ کے لئے منتخب کیا۔ مجھ سے رابطہ کیا گیا، میرے پاسپورٹ کی کاپی منگوائی گئی (گلف کے ملکوں کا رواج ہے کہ وہاں کوئی بھی مہمان سپیکر یا کتاب بغیر حکومتی منظوری کے سٹیج پر نہیں آسکتی)۔۔کچھ دنوں بعد منتظمین کا جواب موصول ہوا آپ کی دوبئی ایمبیسی(فنکشن دوبئی میں ہونا تھا) نے ہی آپ کی منظوری نہیں دی کیونکہ آپ اینٹی پاکستان سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
جرنیل صاب! ہماری اینٹی پاکستان سرگرمیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:ہم اوورسیز، اپنے ملک میں مضبوط جمہوری نظام اور انسانی حقوق کی بالادستی کی بات کررہے ہیں۔ ہم پاکستان کے ہیرو جس نے ہمیشہ پاکستان کو کچھ دیا ہی ہے؛ باہر کی دولت کبھی انعام کی صورت اور کبھی فنڈ ریز کر کے اپنے ملک میں ہی لایا ہے۔ جس نے پاکستان کے لئے اس حقیقی آزادی، عزت ِ نفس اور خودداری کی بات کی جس کی لڑائی ہمارے بابائے قوم نے سستر سال پہلے لڑی تھی۔لیکن آپ نے اسے اندر کر کے، پاکستان، اس استحصالی ٹولے کے سپرد کردیا جو سالوں سے اپنے پرانے انگریز آقاؤں کے نقش ِ قدم پر چلتے ہو ئے ملک کے ذخائر لوٹ کر مغربی ممالک کے بنکوں کا، انوسٹمنٹ کا پیٹ بھرتے ہیں۔
حافظ صیب! جو قران آپ کے سینے میں محفوظ ہے (اگر یہ سچ ہے)تو آپ کے سینے میں عام انسان کا درد بھی ہوتا، اس ذمہ داری کا احساس بھی ہوتا جسے خدا سونپ کر آزمائش میں ڈالتا ہے۔آپ اس آزمائش میں ناکام ہو چکے ہیں۔ آپ نے پاکستان کے بچوں کو بے سائبان کردیا ہے۔ بے گناہ لوگوں کو مار دیا ہے، پاکستان کے سب سے بڑے ہیرو اور اسلام کی بات دنیا کے سامنے کرنے والے عالمی ہیرو کو جیل میں بدتر حالات میں رکھا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے ہی ملک کی عورتوں کی بے حرمتی کی ہے۔ آپ نے بزرگوں کو سڑکوں پر گھسیٹا ہے۔ آپ نے ملک میں بے ایمانی اور جھوٹ کو قانونی حیثیت دی ہے۔ آپ نہ صرف پاکستان کے بلکہ اسلام کے بھی مجرم ہیں۔ کیونکہ آپ نے اسلامی طریقہ کار کا کھلم کھلا مذاق اڑایا ہے۔
جرنیل صاب! ہم اوور سیز اپنے ملک پاکستان کے بہترین سفیر تھے، آپ نے ہمارے دلوں میں اپنے ہی ملک سے بیزاری بھر دی ہے۔ آج بھی یہاں پاکستان کے فنکار پرفارم کر نے آتے ہیں مگر اب ہم ٹکٹ لیتے ہو ئے سوچتے ہیں کہ یہ پیسہ اس ملک میں جائے گا جس نے ہمیں ڈس اون کردیا ہے؟ تو ہم میں سے کئی ٹکٹ خریدنے کی بجائے یہاں کے کسی اور ریفیوجی کی مدد کر نے کو ترجیع دینے لگے ہیں۔
جرنیل صاب! یہاں پاکستانی میلے میں جاتے ہو ئے اب ہمارا دل گھبرانے لگتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ملکو کی یہاں پرفامنس تھی (جس کو عمران خان کے لئے گانا گانے کے صدقے اتنی شہرت ملی ہے کہ لوگ بشمول میرے اس کے پیار میں کھچے چلے آئے، یہاں کے آرگنائزرز بھی جان گئے ہیں کہ بیرون ملک وہی چلے گا، جو خان کے لئے کھڑا ہوا، باقی جوبھی آیا ناکام و نامراد ہی گیا)۔۔ ملکو نے حسب ِ توقع میلہ لوٹ لیا۔ کھلے آسمان تلے، خنک موسم میں، لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھیگتی رات میں جوق در جوق آتے جارہے تھے۔۔ ملکو کا قیدی نمبر آٹھ سو چار سننے۔۔۔
جرنیل صاب آپ کی ناکامی یہ ہے کہ ہم سب اس خان کے نام پر جو جیل میں بے بس بیٹھا ہے، کچھے چلے آتے ہیں اور آپ کے پلانٹٹڈ لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہو ئے بھی کہ آپ ہمیں اینٹی پاکستان بلکہ غدار کا ٹائٹل دینے کی طاقت رکھتے ہیں پھر بھی۔۔۔۔ دلوں کو فتح کر نا آپ کے کیا آپ کے بڑوں (انگریزوں) کے بس میں بھی نہیں تھا۔
جر نیل صاحب! ملکو، شازیہ منظور اور شبنم مجید سے کم گلوکار ہوگا، مگر سوچئیے وہ سب سے اہم ہوچکا ہے کیوں؟۔۔اس کا جواب ڈھونڈئیے اور ہمارے جیسے اوورسیز پاکستانیوں کو ڈس اوون اور غدار قرار دینے کی بجائے تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔
سر!ہم جو کبھی قومی ترانوں پر جھوم جھوم جایا کرتے تھے اب وطن کی مٹی گواہ رہنا جیسا گیت سن کر اپنی آنکھوں سے امڈتے آنسو نہیں روک سکتے۔ آپ کے ہاتھ میں طاقت کا ڈنڈا اور سینے میں قران محفوظ ہے مگر آپ کتنے لا علم اور نادان ہیں۔۔۔
خدا آپ کو عقل و شعور دے جس کی امید کم ہی ہے مگر پھر بھی دعا کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ملک آپ کا نہیں ہمارا ہے، عام لوگوں کا، ہمارے بابائے قوم نے ہمارے لئے بنایا تھا۔ اللہ اس ملک کو اس کے حقیقی وارثوں تک پہنچائے اور آپ کو جہنم کی آگ سے بچائے۔
ایک اوورسیز پاکستانی۔
روبینہ فیصل
14/08/2024