رے بریڈ بری کا” فارن ہائیٹ “451 اور پاکستان کی گمراہ یوتھ

Jinnah-House-Lahore1684217585-0

رے بریڈ بری کا” فارن ہائیٹ “451اور پاکستان کی گمراہ یوتھ۔
(سانحہ نو مئی پر ایک خاص ناول پر خصوصی تحریر)
تحریر:روبینہ فیصل
رے بریڈ بری نے یہ مختصر ناول 1953میں لکھا۔ اس ناول کو پڑھتے ہو ئے آپ اس ماضی میں جاتے ہیں جس میں بیٹھ کرمصنف نے یہ ناول تخلیق کیا اور پھر آپ وہاں سے مصنف کی وہ عینک لگاتے ہیں جس سے وہ اپنا مستقبل اور ہمارا حال دیکھ رہا تھا۔
اسے سپیکلیلیٹیوفکشن کہتے ہیں۔یہ ایک ڈسٹوپیین ناول ہے۔
اس ناول کا مر کزی کردار ایک فائر مین مونٹاگ ہے۔ اِس ناول میں جس مستقبل کے زمانے کو دکھایا گیا ہے وہ ایسا وقت ہے جب تمام عمارتیں فائر پروف ہوچکی ہیں لہذا فائر مین کا کام آگ بجھانا نہیں بلکہ آگ لگانا ہے۔ ان کے ہو ز میں پانی نہیں بلکہ مٹی کا تیل ہو تا ہے اور جلائی جانے والی چیز کتاب ہے اور وہ گھر ہیں جن میں کتابیں پائی جاتی ہیں۔
مستقبل کے اس وقت میں کتاب پڑھنا ایک جرم بن چکا ہے۔ کیونکہ کتاب آپ کو خود سے ز ندگی کا فلسفہ، معنی اور مقصد کھوجنے پر اکساتی ہے۔اور ان(حکومت) کے خیال میں کتاب آپ کو بے چین کرتی ہے اور آپ بلاوجہ سوچنے کے تردد میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو کہ انسانی صحت کے لئے ٹھیک نہیں۔
نیل گے مین نے اس ناول کے تعارف میں لکھا ہے کہ” اس زمانے میں جب ریڈیو کی جگہ ٹی وی لے رہے تھے اور اس وقت یہ لطیفہ عام تھا کہ پہلے جس گھر میں رات کے وقت روشنی دیکھی جاتی تھی تو فر ض کر لیا جاتا تھا کہ گھر کے مکین ابھی جاگ رہے ہیں لیکن ٹی وی آنے کے بعد جس گھر میں سر شام ہی بلب بجھ جائیں تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ گھر والے ابھی جاگ رہے ہیں۔(بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دیکھنے کے لئے اندھیرا کر لیا جاتا تھا)۔” یہ اس وقت کی ٹیکنالوجی کی سطح پر ایک تبدیلی ہو رہی تھی۔
مصنف، حقیقی دنیا کو ٹیکنالوجی میں ضم ہو تے دیکھ رہا تھا۔
مونٹاگ کی بیوی سارا دن ٹی وی سکرینوں میں گھری رہتی ہے۔ اس کے کانوں میں ہیڈ فون لگے رہتے ہیں اور وہ سوتی بھی اسی حالت میں ہے۔۔انسان،دوسرے انسان سے اور فطرت سے دور ہو رہا ہے۔ اس کی بیوی کا واسطہ اپنے اردگرد کی دنیا اور لوگوں سے نہیں بلکہ ان سکرینوں کے کرداروں سے رہتا ہے۔۔ ان سکرینوں پر جو دکھایا جارہا ہے، اس ڈسٹوپین معاشرے کے لوگ اس کے ساتھ متفق ہو کر جڑ چکے ہیں۔
کوئی انفرادی سطح پر سوچنے کی زحمت نہیں کر رہا اور نہ کرنا چاہتا ہے۔ جو حکومت ان کو دکھانا، سنوانا، اور سوچوانا چاہتی ہے ویسے ہی سب ہو رہا ہے ۔ اس غیر فطری مفاہمت کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ ڈپریشن، اینگزائٹی، انسومنیا کا شکار ہو رہے ہیں۔ مونٹاگ کی بیوی ان سب امراض کا شکار ہے۔
اس دور میں،سیاسی سطح پر ا مریکہ روس میں سرد جنگ تھی، کتابوں پر سنسر شپ بڑھ چکی تھی، کمیونزم کے خوف سے امریکہ میں کئی کتابوں پر پابندی لگائی جا رہی تھی، سزائیں دی جا رہی تھیں، ایسے میں رے بریڈ مین نے یہ ناول تخلیق کر کے نہ صرف حال میں ہونے والی پابندیوں اور حکومتی سختیوں کی طرف توجہ دلائی بلکہ یہ بھی بتایا اگر یہ سب ایسے ہی ہو تا رہے تو معاملہ کدھر کو جائے گا۔ یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے اس کا وہ منظر نامہ پیش کیا تھا جو ہم اب آج کی موجودہ دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔
ناول کے آغاز میں جو مقولہ لکھا گیا ہے وہ ہے اصل بات:
“اگر وہ تمہیں لائنیں لگا کرپیپر لکھنے کو دیتے ہیں تو ان لائنیز میں نہ لکھو بلکہ جہاں دل کرے وہاں لکھو۔۔ ”
مونٹاگ نے یہی کیا۔۔۔ اپنے اردگرد دیکھیں، پاکستان میں دیکھیں کون ہے ایسا لیڈر، ایسا انسان جس نے لگائی گئی لائینوں سے ہٹ کر لکھنا شروع کیا، نئی نسل تک اپنی بات پہنچائی اور انہیں ریاستی سطح پر مجرم بنا دیا۔۔ سوچنے، سمجھنے والے مجرم۔۔
مونٹاگ جو ناول کے شروع میں کہتا ہے کہ جلانا ایک خوش کن عمل ہے، جب ایک نوجوان لڑکی سے ملتا ہے جو زندگی کی علامت ہے، جو چہل قدمی کرتی ہے، ارد گرد کے لوگوں سے باتیں کرتی ہے، سوال پو چھتی ہے، محبت کی، فطرت کی، خوشی کی بات کرتی ہے جو اُس سے پوچھتی ہے۔۔ کیا تم خوش ہو؟
اس سوال پر وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے۔۔ خوشی کیا ہے اور خوش ہونا کیوں ضروری ہے ؟
آگاہی کا ایک اور مر حلہ آتا ہے۔۔۔
اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ جہاں بھی کتاب کی خبر ملتی ہے ان کے ڈیپارٹمنٹ میں الارم بجتا ہے اور پھر وہ وہاں جا کر اس گھر سمیت کتابیں جلا کر آتے ہیں۔ایک دن اسی طرح وہ ایک بوڑھی عورت کے گھر جاتے ہیں۔ وہ گھر چھوڑ کر جانے کی بجائے انہی کتابوں کے ساتھ جلنا پسند کرتی ہے۔۔ بوڑھی عورت کا یہ عمل مونٹاگ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ان کتابوں میں ایسا کیا ہے کہ بڑھیا نے ان کے ساتھ ہی زندہ جل جانا قبول کر لیا۔۔۔۔
اس کے بعد وہ یہ نوکری چھوڑنا چاہتا ہے، اس کی بیوی اسے ایسا کرنے سے روکتی ہے کیونکہ پھر اس کی پرتعیش زندگی اور سکرینوں کا کیا بنے گا۔
مونٹا گ کتابیں چوری کر کے کوئی بیس کتابوں کا ذخیرہ کر لیتا ہے۔اس کے باس کو شک پڑتا ہے۔
اس ناول میں ایک مکینکل شکاری کتا بھی ہے جس کی آٹھ ٹانگیں ہیں۔ اور وہ کتابوں سے محبت رکھنے والوں کی کھوج میں ٹرینڈ کیا ہوا ہے۔ یہ شکاری کتا، مونٹاگ کو اپنے گھر کے باہر نظر آتا ہے۔۔
اس کی بیوی اس پر چیختی ہے۔۔۔وہ اپنی بیوی کو کہتا ہے جلائے جانے سے پہلے، مرنے سے پہلے گرفتار ہو نے سے پہلے کیوں نہ ایک دفعہ ان کتابوں کو پڑھ کر دیکھیں تو سہی۔۔ہم کچھ ایسا سیکھ جائیں جو ہم آنے والی نسلوں کو بتا سکیں چاہے وہ ایک سطر ہی کیوں نہ ہو۔
وہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر اسے سمجھ نہیں آتی۔۔ وہ ایک بوڑھے آدمی کے پاس جاتا ہے جو کتابوں کا عاشق ہے مگر وہ بھی خوفزدہ ہے۔۔
اس ناول پر فلمیں بھی بن چکی ہیں، اگر کتاب پڑھنے کو دل نہ کر ے تو فلم دیکھ لیں مگر بات پھر وہی آجاتی ہے کہ کتابوں سے دوری اور بیزاری نے ہمیں اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ ہم ہر وقت دیواروں پر بھی نہیں ہاتھوں پر سکرینیں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اور وہی دیکھ رہے ہیں جو حکومتیں، جو کارپوریشنیں ہمیں دکھانا چاہتی ہیں۔ ہم کتاب نہیں پڑھیں گے بلکہ ہم وہ دیکھیں گے جو آج کے طاقتور، غاصب ہمیں دکھانا چاہتے ہیں۔۔پورنوگرافی،کنٹرولڈ نیوز وغیرہ
ایک وہ سنسر شپ ہے جو حکومتیں کرتی ہیں۔ موجودہ دور کی dystopian society کی شائید سب سے بڑی پاکستان مثال ہی ہے۔
آخر میں اس ناول کا ہیرو جو یکسانیت اور سٹیٹس کو کے کیخلاف، بغاوت کی ایک شمع روشن کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے کوئی اچھا پیغام چھوڑ کے جانا چاہتا ہے ۔اس پر اس کا باس اپنے شکاری کتے کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔
مونٹاگ، ان دونوں کو مار دیتا ہے۔ خود بھی اس کی ایک ٹانگ زخمی ہو تی ہے مگر وہ لنگڑاتا ہوا بھاگتا چلا جاتا ہے ۔
پیچھا کر نے والے ہیلی کاپٹر اور نئے شکاری کتے سے بچنے کے لئے وہ دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔اور وہ تعاقب کر نے والے ادارے، دریا میں ڈھونڈنے جیسا محنت طلب کام کر نے کی بجائے واپس چلے جاتے ہیں۔
مونٹاگ،شہر سے باہر خانہ بدوشوں (فلاسفر، لکھاری،سکالر جو خود کو شہر بدر کر چکے ہیں اور یہاں اپنی الگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں) تک جا پہنچتا ہے۔ وہ اسے دکھاتے ہیں کہ دیکھو تم یہاں زندہ سلامت ہو اور وہ تمہاری جگہ کسی اور کا پیچھا کر رہے ہیں اور تمام دنیا کو سکرین سے باندھے بیٹھے ہیں۔ اور اس خود ہی رچائے گئے ڈرامے کا انجام یوں کرتے ہیں کہ ایک بے قصور، انجان شخص کو مونٹاگ بنا کر سکرینوں سے چمٹے لاکھوں لوگوں کے سامنے بڑی عیاری سے پیش کرتے ہیں اس پیغام کے ساتھ کہ دیکھو ہم نے نظام کے باغی کو کیسے مار گرایا۔
یہ ناول ضرور پڑھئیے،اس کے اندر بہت معنی پنہاں ہیں۔۔ مجھے تو یہی نظر آیا کتابوں سے دوری ہمیں خود ہی اتنا کمزور کردیتی ہے کہ ہم طاقتور کے پروپیگنڈا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے دشمن آپ ہیں۔
جن معاشروں میں مونٹاگ جیسے لوگ پیدا ہو تے رہتے ہیں وہ معاشرے زندہ رہتے ہیں۔۔ پاکستان میں، بغاوت کی، مزاحمت کی، اپنی انفرادیت پر ڈٹ جانے، اپنی خودی، عزت نفس کی حفاظت کی مثال عمران خان کی صورت موجود ہے۔ نوجوان نسل تک وہ اپنے الفاظ پہنچا چکا ہے، اور اب حکومتی نظر میں، طاقتور، غاصب کی نظر میں یہ یوتھ گمراہ ہی رہے گی۔ اس سرد جنگ کا نتیجہ غاصب کی شکست ہے۔۔
جیسا کہ اس ناول کے اخیر میں جنگ کے نتیجے میں شہر کی تباہی دکھائی ہے اور یہی پڑھے لکھے لوگ پھر سے شہر کو آباد کر نے کا منصوبہ بناتے ہیں۔۔ ہر تباہی،زوال اور گراوٹ کے بعد گروتھ کا ایک سلسلہ شروع ہو تا ہے۔۔
پاکستان میں وہ سلسلہ نوجوان نسل شروع کرے گی۔۔ عمران خان نے حقیقی تبدیلی کی ایک سطر پڑھ کر انہیں سنا دی ہے۔۔