روبینہ فیصل کا ناول”نارسائی” مجھ تک بہت پہلے پہنچ گیا تھا۔اس کا شمار فیکشن( فیکٹس+ فکشن) میں ہوتا ہے۔مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اردو میں اس کے موجد کون ہیں مگر اردو میں یہ روش کچھ اتنی نئی بھی نہیں ہے۔عزیز احمد کے’تصورِ شیخ” میں اس کی واضح جھلک موجود ہے اور غیر ملکی ادب میں ایلکس ہیلی کی “روٹس” اس ضمن میں ایک عمدہ مثال ہے۔شمسی الرحمٰن فاروقی کا ناول” کئی چاند تھے سرِ آسماں” اور مرزا حامد بیگ کا”انارکلی” اس کی دو تازہ مثالیں ہیں ،غافر شہزاد کے ناول “مکلی میں مرگ” اور ” استغاثہ” بھی اس کی عمدہ مثالیں ہیں اور اب روبینہ فیصل کا یہ ناول” نارسائی”.
میں نے” نارسائی” بہت پہلے پڑھ لیا تھا۔اب تک خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ میں اس ناول کے تمام کرداروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور بعض کے بہت قریب رہا ہوں۔اس حوالے سے لکھی گئی اکثر( فکشن یا دوسری) تحریریں بھی میری نظر سے گُزری ہیں۔اور تو اور میں اس ناول کے مرکزی کردار سے بھی کئی بار مل چکا ہوں اور وہ لاہور کے ایک دورے کے دوران میں پندرہ روز میرے فلیٹ پر بھی قیام پذیر رہیں،جہاں سے میرے شفٹ کر جانے کے بعد میرے ایک دوست بطور کئیر ٹیکر رہائش پذیر تھے۔سارا شگفتہ کی آمد اور لاہور کے ادیبوں خاص طور پر نثری نظم کے شاعروں کی اس زمانے کی ہنگامہ آرائی کا میں عینی شاہد ہوں،جس کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں۔میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سارا کے بارے میں حقیقت تک پہنچنا آسان نہیں کہ اس قصے کے کرداروں نے حقیقت سے بوجوہ اغماض برتا ہے اور شاید یہ اپنے حصار کو برقرار رکھنے یا مضبوط کرنے کے لیے ضروری بھی تھا۔
سو میں اپنے آپ کو صرف ناول کے بیانیے اور تکنیک تک محدود رکھوں گا۔یہ ناول فلیش بیک تکنیک میں لکھا گیا ہے اور آخر تک آتے آتے زمانۂ حال بل کہ مرکزی کردار کے بعد کے زمانے میں داخل ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے اس ناول کا دورانیہ لگ بھگ ستر برس پر محیط ہو جاتا ہے۔اس طرح یہ استحصالی طبقوں کی کئی اقسام کی خبر دیتا ہے۔وہ جو ادب سے وابستہ ہیں اور وہ بھی جو تخلیقی وفور سے نا بلد ہیں مگر ان سب میں مشترک شے ان کی ہوس پرستی ہے اور بے حسی جو کسی وجود کو جسم کے سوا دیکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
روبینہ فیصل ناول کو ایک متوازن سلیقے سے لے کر چلی ہیں۔ناول اچھے طریقے سے بُنا گیا ہے اور بوجھل پن،غیر ضروری طوالت اور ناصحائی تقاریر سے کم و بیش پاک ہے۔ان کی توضیحات عمدہ اور بیانیہ دل کش اور رواں ہے اور اس میں قاری کو ساتھ لے چلنے کی طاقت ہے۔
ناول کے آخری دو تین باب مجھے غیر ضروری لگے۔مجھے نہیں معلوم کہ سارہ کی بیٹی اس نوع کی زندگی گزار رہی بھی ہے یا نہیں لیکن گزار رہی بھی ہے تو ناول نگار کو سارا اور قاری کی روح کی اذیت کو بڑھانا نہیں چاہیے تھا۔
روبینہ فیصل کو کہانی بُننے اور پھیلانے کا ڈھنگ آتا ہے۔” نارسائی” میں اُس کی تخلیقی اُپج کو آزمانے کی ضرورت شاید کم تھی،اس لیے میں چاہوں گا کہ وہ ایک اور ناول تخلیق کر کے اپنے اورجنل کہانی کار ہونے کا ثبوت دیں کہ بہرطور وہ ناول کی تکنیک سے بخوبی آگاہ ہیں۔سہولت اور رسان سے لکھنا جانتی ہیں۔سو اب اس صلاحیت کو مزید آزمانے کا وقت آ گیا ہے۔
:غلام حسین ساجد