زندگی کے درازوں کو کھول کھول کر دیکھتی ہوں
کہاں ہو تم؟ پردوں کے پیچھے، الماریوں کے اندر
ہر جگہ دیکھتی ہوں۔ کہاں ہو تم؟
تمھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے سارے جسم پر
آنکھوں کے نیلے نشان پڑ گئے
اور ان کے گرد سیاہ دائرے ابھر آئے ہیں
مگر تم ہو کہ ملتے ہی نہیں
کہاں ہو تم؟
میں تو ہر بند دروازہ اس امید پر کھولتی ہوں کہ
تم سنہرے دل اور روشن ستارہ جیسی آنکھوں
کے ساتھ ادھر کھڑے ہوگے
مگر وہاں تو ماسک پہنے کبھی تین آنکھوں والا دیو
کبھی سرکس کا کوئی مسخرہ
اور کبھی کوئی زہریلا بچھو مجھے ڈراا دیتا ہے۔
پھر بھی امید کا ایک جگنو ہے جو میرے کان میں کہتا رہتا ہے
اس دروازے اور ماسک کے پیچھے سے کبھی تو ” تم” بھی نکلو گے