تحریر: روبینہ فیصل
لازمی نہیں کہ “قربانی”کا مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ہم عید ِ قرباں کا انتظار کر یں جب کہ اس کی مثالیں آج اور ابھی میرے گرد بکھری ہو ئی ہیں۔
خیرو شر کا تصادم اور حق و باطل کی جنگ کسی ایک زمانے کی میراث نہیں،یہ ہر دور کا منظر ہے، یہ ہر ملک ہر خطے کی سب سے زیادہ بیسٹ سیلر کہانی ہے۔ سٹیج بدل جاتا ہے، کردار بدل جاتے ہیں مگر خیر و شر کی، حق و باطل کی یہ کہانی جُو ں کی تُوں ڈٹی رہتی ہے۔
حق کی خاطر معاشروں کے اجتماعی نفس کو قربان کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر سنت ِ ابراہیمی پو ری ہو تی ہے۔ حق کی راہ میں قربانی دینی پڑتی ہے تب کہیں جا کر انسان اپنے رب کے حضور سر خرو ہوتا ہے، اپنی پیدائش کو جسٹیفائی کرتا ہے،خود کو اشرف المخلوقات کے ٹائٹل کا حقداربنانا پڑتا ہے۔
سوچئیے! آج کی تاریخ میں اگر کوئی اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیردے تو وہ پاگل کہلایا جائے گا۔لیکن اگر کوئی اس کے باوجود وہ کام کر جائے تو کیا وہ سنت ِ ابراہیمی، ذبح ِ عظیم کا جائز وارث نہیں ہو گا؟
پاکستان میں اعلی مقصد کے لئے قربانی، نفس کی طہارت، حق پر ڈٹ جانا، حق کی راہ میں صعبوتیں اٹھانا، جبر اور باطل کے خلاف آواز اٹھانا، یہ سب ناپید تھا۔ پاکستان کے بنتے ہی مفاد پرست ٹولوں نے جب اس نوزائیدہ ریاست پر اپنا تسلط قائم کر لیا تو ہر آنے والے حکمران نے اپنی خاص سوچ لوگوں تک منتقل کی، کسی نے برطانوی طرز کا یوز اینڈ تھرو طریقہ کار اپنایا، تو کسی نے کر پشن اور خوشامد کو سرپرستی میں لے لیا، کسی نے رشوت کو جائز کر دیا تو کسی نے معاشرے کے دماغوں اور قلموں کو لفافے کے زور پر خریدنے کا رواج ڈال دیا، کسی نے فرعونیت کو حاکمیت کا مستقل طریقہ سمجھا،تو کسی نے تشدد کے ذریعے اپنی ہمنوائی کی راہ ہموار کی۔۔ مگر ان پچھتر سالوں میں کبھی کسی قومی رہنما نے عوام کے اندر حق کے لئے کھڑے ہو نے کا، آواز بلند کر نے کا، جبر سہہ کر ڈٹے رہنے کا اور قربانی کا راستہ نہیں بتا یا۔
مگر دیکھئے!گذشتہ ڈیڑھ سال میں کیا ہوا۔۔وہ عوام جس کی ٹریننگ آج تک جھوٹ، منافقت، دھوکے بازی، ایک دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے، دوغلے پن، جبر کے سامنے سرنگوں ہونے کی، خوشامد کر نے کی تھی پہلی دفعہ انہوں نے اپنے نفس کو قربان کر نے کی ٹھان لی،پہلی دفعہ انہوں نے صرف اپنے” آج” اور صرف اپنے بچوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے اپنے ملک کے تمام بچوں کے
” کل “کے بارے میں سوچنے کی ٹھانی۔
پہلی دفعہ انہیں احساس ہوا کہ ہمارے بڑے ہمارے یک مشت سودے کر کے بڑی بڑی کمیشینیں کھاتے رہے ہیں۔ پہلی دفعہ انہیں احساس ہوا کہ ہمارے قومی ذرائع اور وسائل پر بیر ونی طاقتوں کا تسلط، اپنے ہی بڑوں کا کارنامہ ہے۔
ہم آزاد نہیں ہیں۔ غلاموں کی رو حیں چٹخنے لگیں، وہ بلبلا اٹھے، اور انہوں نے با آواز بلند دہائی دینا شروع کر دی۔
بڑے پہلے تو حیران ہو ئے، پھر پریشان کہ یہ جن کو پچھتر سال سے سستی، کاہلی، جہالت، مالی اخلاقی بد عنوانیوں کے ٹیکے لگا لگا کر سلایا تھا یہ جاگ کیسے گئے۔ان کو تو سویا رہنا چاہیئے تھا۔۔۔انہیں دوبارہ سلانے کی ہر ممکن کو شش کی گئی۔ کسی کو ورغلا کر کسی کو دھمکا کر،جب “بیدار عوام” نے دوبارہ خواب غفلت میں غرق ہو نے سے انکار کردیا تو ” بڑے” غضب ناک ہو گئے۔۔۔تلوار میان سے نکال لی اور منہ سے آگ برساتے ہوئے نیند سے جاگے لوگوں پر برس پڑے۔ انہیں بدتمیز، گستاخ، بے ادب کہا جانے لگا اور پھر آوازیں تب بھی نہ رکیں تو انہیں غدار بنانے کی سکیم بنائی گئی۔۔
تحریکی، اس خوش فہمی میں تھی کہ جنہوں نے دشمنوں سے ہر جنگ ہاری ہو، وہ ہم سے کیا جیتں گے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ دشمن سے ہر جنگ ہارتے ہی اس لئے رہے ہیں کہ یہ اپنے لوگوں کو(کبھی بنگالیوں کو، کبھی پختونوں کو، کبھی بلو چیوں کو)فتح کر نے میں لگے رہے ہیں اور اب جب کہ ایک قومی لیڈر کے پیچھے سارے پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی، ایک مٹھی بن کر، پوری ہمت اور شعور کے ساتھ آ کھڑے ہوئے ہیں تو یہ پھر بھی اپنا قبلہ درست کر نے کی بجائے جبرا سب کا منہ اپنی طرف کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پرانا راگ ذرا اونچے سُروں میں اس لئے چھیڑنا پڑ رہا ہے کہ اب قوم۔۔جان کی، مال کی، اور بچوں کی قربانی دے رہی ہے۔۔
قوم” ذبح عظیم” لئے تیار کر دی گئی ہے اور ان کے راہنما نے سب سے پہلے اپنی ذات کی، مال کی، بچوں کی، گھر بار کی، عیش و عشرت کی، قربانی پیش کی ہے۔ آج وہ موت کی کوٹھری میں بیٹھا ہے مگر وہ جانتا ہے کہ حضرت عیسی صلیب پر چڑھ کر بھی کیوں سر بلند ہوئے،زہر کا پیالہ پینے سے پہلے سقراط کے چہرے پر اطمینان کیوں تھا اور حسین ٌجام شہادت پی کر سرشار کیوں تھے۔۔ اس کا راستہ ان سب حق سچ کی راہ میں قربان ہونے والوں جیسا ہے۔
اوریہی نفس اور روح کی قربانی کا جذبہ پچھتر سال سے سوئے لوگوں میں بیدار ہے کہ لیڈر خود قربان گاہ میں سب سے پہلے موجود ہو تا ہے۔
میاں عباد نے اپنے رب کی خوشنودی کے لئے سنت ابراہیمی پر عمل کیا ہے۔ حق کی خاطر اپنی سب سے پیاری چیز کی قربانی دے دی ہے مگر استحصال کر نے والے جابر حاکم کے آگے جھکا نہیں اپنے کلمہ حق پر ڈٹ کر حسینی لشکر کا حصہ بن گیا ہے۔
شہر یار آفریدی، عمران ریاض، تحریک کی تمام خواتین جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر جیلوں میں بند ہیں، کئی کارکن،رہنما جو نو مئی سے لاپتہ ہیں (یقینا جھکنے سے انکاری ہیں تو لاپتہ ہیں) یہ سب قربانی کی مثالیں ہیں۔ یہ قوم کی بیداری کا اشارہ ہے۔
ارشد شریف،حق سچ کا استعارہ بن کر رہتی دنیا تک صحافت کے آسمان پر چمکتا رہے گا۔
ظل ِ شاہ جیسا عاشق صدیوں تک اپنی چمکتی آنکھوں اور بھولے بھالے چہرے کے ساتھ وفا اور قربانی کی تصویر بن کر جگمگائے گا۔۔
ننھا عمار باپ کی قربانی کی مثال بن کر پاکستان کی سیاہ تاریخ میں ایک روشن باب بن کر چمکتا رہے گا۔آنے والے وقتوں میں مائیں اپنے بچوں کو یہی کہانیاں سنائیں گی۔۔
موت ان کے قاتلوں کو بھی آئے گی مگرہر ظالم کی طرح یہ مردود بھی بے نام و نشان رہ جائیں گے۔ نہ کوئی ان کی میراث بننا پسند کرے گا اور نہ جانشین ان کا نام فقط غلامی، منافقت، دھوکے اور ظلم کی تاریخ میں ایک دھبے کی صورت کسی سیاہ صفحے پر بکھرا رہے گا۔
یاد رکھئے حق کے پاس خلوص، آزاد ی سوچ، آزادی اظہار، انسانیت، طہارت اور اعلی اخلاق ہو تا ہے، باطل کے پاس جہالت،انسان دشمنی، استحصال اور غلامی جیسی لعنتیں ہو تی ہیں اور وہ انہی کو اپنی طاقت سمجھتا ہے۔
یاد دلانے کی بات ہے کہ کربلا میں فرات کے کنارے، اہل بیت کا قافلہ، جس کے سالار پیارے پیغمبر کے نواسے، علی کے بیٹے حسینؓ پناہ گزین تھے۔قصور فقط یہی تھا کہ انہوں نے دولت اور طاقت کے نشے میں دُھت یزید کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کردیا۔وہ جانتے تھے کہ اس کے بدلے مصائب کے پہاڑ توڑے جائیں گے مگر انہوں نے حق کا یہی راستہ چنا۔ بچوں، بوڑھوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کردیا گیا،سروں کو نیزوں پر چڑھا کر بلند کیا گیا، لاشیں روندی گئیں، خیمے جلائے گئے، عورتوں کو کوفہ کے گلی بازاروں میں قیدی بنا کر پھرایا گیا۔۔
کیا یہ امام حسین ؓکی شکست تھی؟
سقراط اپنی سچائی پر ڈٹ گیا تھا، وہ کہتا تھا سوال پو چھنے دو، مجھے سوال کر نے دو۔اس سے بڑوں کو لگا کہ نوجوان نسل کو تو یہ خراب کردے گا۔ وہ سوال کریں گے۔۔ کھوجیں گے، ڈھونڈیں گے، جاگ جائیں گے۔۔اس جر م میں اسے زہر کا پیالہ دے دیا گیا۔۔ کیا سقراط ہار گیا؟ کیا یہ اس کی شکست تھی؟ وہ آج تک سچ کی علامت بن کر زندہ ہے۔ اس کو زہر کا پیالہ دینے والے خود کہاں فنا ہو گئے۔۔
حضرت عیسیؑ کی صلیب ہو، سقراط کا زہر کا پیالہ یا امام حسینؓ کا جام شہادت ہو یہ سب فاتحین ہیں۔ ان کو مار دینے سے، ان کے پیرو کاروں کو اذیتیں دینے سے دشمنوں کو فتح نہیں مستقل شکست نصیب ہو ئی ہے۔ ان کی فتح اسی میں ہے کہ باطل کے آگے کھڑے ہو نے والے آج بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ شر کی فتح عارضی ہے، حق کی فتح رہتی دنیا تک رہتی ہے۔
جو کہتے ہیں عمران خان اوراس کے سپورٹرز اور ووٹرز کو زوال ہے وہ تاریخ کے صرف ان صفحوں میں جھانک کر دیکھ لیں۔ طاقت،دولت، جبر اور انسان دشمنی سے حاصل کی گئی وقتی فتح، اصل میں مستقل شکست ہو تی ہے۔ جابر اور ظالم کو وقتی فتح مبارک ہو۔
۔۔۔