ظلم کی رات سیاہ ہے مگر رات ہی تو ہے
ڈھل جائے گی
مگر جب ڈھلے گی اور اس رات کی صبح طلوع ہوگی
تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟
اس صبح سورج کی کرنوں میں بیداری نہیں بیزاری ہوگی
درختوں سے پرندوں کی چہچاہٹ نہیں بلکہ وحشت ٹپکے گی
سناٹا روح تک اتر جائے گا
پتوں کے رنگ سبز نہیں بلکہ سیاہ ہوں گے
اس صبح جب گھاس پر ننگے پاؤں چلو گے تو شبنم کے موتی تلووں پر گدگدی نہیں کریں گے
وہاں کانٹے اُگے ہوں گے جو ہر اٹھتے قدم کے ساتھ پورے جسم میں پھیلتے جائیں گے
جانتے ہو ایسی بے کار صبح جب تم گلیوں گلیوں شہروں شہروں ان سوغاتوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے گھوموں گے تو تمہارے پاس
بیچنے کو کیا ہوگا ؟
بو لو ۔۔ جواب دو ۔۔
چُپ کیوں ہو؟
چپ رہنے کا یہ فیصلہ تمہیں بہت مہنگا پڑے گا
رات تم پر جو کوڑے برسے تھے
جوتمہارے لبوں کو سی دیا گیا تھا
اور تمہارے پاؤں کو زنجیروں سے باندھ دیا گیا تھا
اس وقت تمہاری سسکیاں بھی یتیم ہوگئی تھیں
وہ گھٹی گھٹی جب ساتھ کے بیرکوں میں بند بے گناہ قیدیوں تک جاتی تھیں
تو وہ خوف سے بھیگے ایک دوسرے کے کانوں میں کہتے تھے
تم نے سنا ؟ وہ کیا کہتے تھے
وہ کہہ رہے تھے ؛
“ اللہ نے چاہا تو یہ رات ڈھل جائے گی ، ہم سب کے مقدر کی یہ رات اپنے اپنے وقت پر سب پر آتی ہے اور ڈھل جاتی ہے ۔”
یہ کہہ کر وہ
ایک دوسرے کے بازؤوں پر سر رکھ کر
ٹانگیں وہاں تک پھیلا کر جہاں تک ان کی چادر جاتی تھی ، صبر شکر سے سو گئے تھے
وہ سب سو گئے تھے
ان کی سرگوشیاں بھی انہی دیواروں میں بازو پھیلا کر سو گئی تھیں ہمیشہ کے لیے ۔۔۔
جانتے ہو اس رات کو اپنا مقدر سمجھ لینے والے کال کوٹھریوں کے اندر اپنی سرگوشیوں کے ساتھ ہی سوئے رہتے ہیں
اگلی صبح تک
اور پھر اس سے بھی اگلی صبح تک
کیونکہ وہ جانتے ہیں
ایسی رات دیکھنے میں تو ڈھل جاتی ہے
مگر سوچنے میں وہیں رکی رہتی ہے
کہیں نہیں جاتی
اور جانتے ہو وہ کب تک نہیں جائے گی ؟
وہ اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک
سب سہنے والے مل کر اپنی سرگوشیوں کو بلند آواز کا دھکا لگا کر چار دیواروں سے باہر نہیں دھکیل دیں گے
جب تک وہ اپنی آواز کے مقدر میں روشنی نہیں لکھ دیں گے
تب تک ان کی صبح ایسی ہی ہوگی
کانٹوں بھری، سسکیوں بھری ،
اندھیری صبح
موت جیسی صبح
رات جیسی صبح
بیزار اور بے کار صبح
روبینہ فیصل