ویسے تو شکسپیئر نے کہا تھا؛”سب سے اچھی تقریر آپ کے اعمال ہوتے ہیں “لیکن اگر آپکے کاروبار کاسارا دارومدار ہی الفاظ پر ہو تو اعمال کے ساتھ ساتھ الفاظ کے چنا ؤ میں بھی احتیاط بر تنی چاہیئے۔ اس لئے ایک سیاست دان یا لیڈر یا دانشور جب منہ کھولے تو سو دفعہ تولے اور پھر الفاظ منہ سے نکالے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں الفاظ کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ جو آپ بولتے ہیں اس کے آپ ہی ذمہ دار ہیں او رعوامی رد ِ عمل بھی فوری ہو تا ہے۔کینیڈا میں دو ہی بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں، لبرل اور کنزرویٹیو۔۔تیسری پارٹی این ڈی پی بھی بڑی بن سکتی ہے لیکن اس کا آئیڈیلزم اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عام لوگوں خوابوں کی اس سوداگری سے ڈر کر ان دو جماعتوں کے درمیان ہی گھومتے رہتے ہیں۔
ڈگ فورڈ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے پر یمئیر ہیں۔ ان کا تعلق کنزرویٹیو پارٹی سے ہے اور وہ 2018میں منتخب ہو ئے تھے۔ وہ راب فورڈ کے بھائی بھی ہیں۔ جو کہ ٹورنٹو کے مئیر رہ چکے ہیں اورصرف 46 سال کی عمر میں انتقال بھی فرما چکے ہیں۔ وہ بہت زیادہ ڈرگز اور کثرت شراب نوشی کا شکار تھے۔ وہ اس بات کو بر ملا مان بھی جایا کرتے تھے مگر اس کو جسٹیفائی کر نے کی کوشش کیا کرتے تھے یہ کہہ کہ؛
ہنگامہ ہے کیوں بر پا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
ٹائپ کی صفائیاں دیا اور لڑائیاں کیا کرتے تھے۔۔اب تو مر حوم ہو گئے خدا ان کے لئے اگلی منزلیں آسان فرمائے۔۔ ایسے ہی یا د آگئے جب ان کے ڈگ فورڈ بھائی کا ایک حالیہ بیان جو انہوں نے نئے آنے والے امیگرنٹس کے حوالے سے دیا تھا، سنا اور اس پر جو رد ِ عمل آرہا ہے اور ان سے معافی مانگنے کے لئے کہا جارہا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ معافی کاہے کی۔۔ میں تو پرو امیگرنٹس بندہ ہوں۔ میرے بیان کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔۔ چلیں ان کا بیان میری لفظوں میں پڑھ لیں ;
” اے امیگرنٹس!جم جم کینڈا آؤ مگر یہ نہ سمجھنا کہ یہاں آکر آرام سے حکومتی وظیفہ کھا ؤ گے،یہاں آنا ہے تو دبا کر کام کر نا پڑے گا۔۔”
جیسے کہ میں نے شروع میں لکھا تھا جب روزی روٹی ہی بیان بازیاں اور تقریریں ہوں تو پھر انسان کو ہونا تو محتاط ہی چاہیئے مگر اب یہ بھی نہیں پتہ ہو تا نا کہ ان غیرمحتاطیوں کے بھی پیسے بن رہے ہو تے ہیں جیسے کہ ہمارے اپنے کچھ دانشور کینیڈین پاکستانیوں کا یہی روز گار بن چکا ہے۔
خیر بات کر تے ہیں ڈگ فورڈ کے بیان کی اور اس کی روشنی میں امیگرینٹس کی اور پھر حساب لگاتے ہیں کہ اس بیان کی کوئی ضرورت بھی تھی یا گورا صاحب نے ایسے ہی چول ماری ہے یا۔۔۔خیر۔۔
کینڈا تو سر زمین ہی امیگرینٹس کی ہے۔ جو یہاں کے مقامی،انڈینز یا ایب اوریجنل جو بھی انہیں کہہ لیں،تھے انہیں تو مار کٹ کر کونے میں لگا یا ہوا ہے۔ اب تو شائید وہ 4%ہی رہ گئے ہیں۔ خیر یہ تو قبضے کی بات ہے۔۔
یورپین اور فرنچ بابو لوگ گیارہویں صدی میں اس بر اعظم کے مشرقی کنارے پر دندناتے ہو ئے آئے اور ہزاروں سالوں سے اس دھرتی پر رہنے والے مقامیوں کو وہی اپنے روایتی طریقے سے یعنی تجارتی کمپنی بنا کر کھڈے لائن لگانا شروع کر دیا۔۔ اس نئی جگہ پر جہاں جانوروں کی فرز کثرت سے ملتی تھیں۔انہیں دیکھ کر یہ یورپین خوب للچائے، اپنی کچھ چیزوں کے بدلے ان سے یہ تازہ تازہ جانوروں کی کھالیں لے جاتے مگر اس سے کہاں دل بھرتا تھا۔۔ پھر ان باہر سے آنے والے فرنچ اور برٹش لوگوں نے آپس میں ذرائع پر قبضے کے لئے خوب لڑائیاں کیں۔ مقامی لوگوں سے بڑے معاہدے ہو ئے۔۔کچھ قبائلی سردار فرنچ لوگوں کے ہاتھ بک گئے کچھ یو رپین کے۔۔ خیر معاملات چلتے رہے اور اس کے بعد تو یو کے اور فرانس اور یورپ کے دوسرے ممالک، اطالوی امریکہ، ساوتھ ایسٹ ایشیا سے بھی لوگ ہجرت کر کر کے اس نئی بستی کو بسانے پہنچ گئے۔ اورجس کو جہاں پر بھی اپنے آبائی وطن جیسے حالات نظر آئے وہ اسی حصے میں بس گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کینیڈا کی تاریخ کا ایب اوریجنل لوگوں والا تاریک صفحہ پھاڑ دیا جائے تو اب جو چہرہ بنتا ہے وہ بہت روشن ہے۔ اس روشنی میں وہ سب رنگ شامل ہیں جو یہاں کے دوراندیش، دیدہ ور اور صاحب ِ بصیرت لیڈروں نے بھرے تھے۔
کینیڈا رقبے کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور یہاں کی آبادی بہت ہی کم ہے۔یہاں کے لوگ لمبی عمریں پا تے ہیں اور بچے کم پیدا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ملک میں ریٹائر ہونے والے لوگ زیادہ ہو جائیں گے اور سکول کالجز میں پڑھنے والے بچے کم پڑ جائیں گے۔ یہ فیکٹر کسی بھی اکنامی کو ناپنے کے لئے استعمال ہو تا ہے۔ ابھی چار ورکرز بمقابلہ ایک ریٹائرڈ بندے کے ہے لیکن 2035میں پانچ ملین لوگ ریٹائر ہو جائیں گے تو دو ورکرز بمقابلہ ایک ریٹائرڈبندہ۔ہوجائے گا۔یعنی ایک کام کر نے والا بندہ ریٹائرڈ لوگوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ اب کام کر نے والے یعنی لیبر فورس یا ورکرز کی بات کر لیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جو کام کر رہے ہیں وہی ٹیکس دے رہے ہیں جن سے پبلک سروس جیسے ہیلتھ کئیر وغیرہ کا نظام چل رہا ہے۔ امیگرنٹس یہاں آکر پیسے کماتے اور خرچ بھی کرتے ہیں جس سے معیشت کو بہت بوسٹ ملتا ہے۔
امیگرنٹس تو جیسے ہی یہاں آتے ہیں ویسے ہی یہاں کے سائیکل میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سا ئیکل میں شامل ہو نے کا تمام تر بوجھ خود ان ہی کے کندھوں پر ہو تا ہے۔ ڈاکٹر،انجئینر، بنکر،اکاونٹنٹ، استاد، وکیل۔۔غر ض کتنی بھی بڑی ڈگری کیوں نہ ہو یہاں آکر زیرو ہو جاتی ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں پو چھتے کہ” ہم نے توکینیڈا میں جو پرو فیشن ڈیمانڈ میں تھے، ان میں ہی اپلائی کیا تھا اور اسی بل بوتے پر یہاں آئے تھے مگر یہاں آکر تو ہماری ڈگریاں ردی ہو گئی ہیں اور ان کو دوبارہ سے زندگی دینے کے لئے ہمیں اپنی زندگی کے کئی اور سال ان کو دینے پڑیں گے۔۔” بلکہ وہ چپ چاپ سر جھکا کر یہاں کے معاشرے، معیشت اوریہاں کے اقدار کو سمجھنے میں جُت جا تے ہیں۔ دو دو نوکریاں کرتے ہیں ساتھ پڑھائی سمجھیں تین نوکریاں ہو گئیں اور ساتھ ساتھ بچوں کو بھی سنبھالتے ہیں۔۔ ایسے میں کوئی لڑکھڑا بھی سکتا ہے، کسی کے پیر وں کے نیچے سے زمین سرک سکتی ہے یا سر پر آسمان گر سکتا ہے، یعنی ان کی طبعیت خراب بھی ہو سکتی ہے، وہ ڈپریشن میں جا سکتے ہیں یا ان کو کوئی جسمانی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے اور اس صورت میں وہ ویلفئیر (جس کا طعنہ معزز مئیر نے مارا ہے)پر بھی جا سکتے ہیں اور یہ کوئی جھوٹی یا جعلی وجوہات نہیں ہو تیں۔۔
جب امیگرنٹس کو یہاں کی امیگریشن ملتی ہے تو پہلے ان کا کردار، صحت سب چھان پھٹک کر لی جاتی ہے۔۔ پھر بھی ایک سروے کے مطابق ایک عام امیگرنٹ یا ریفیوجی کی آمدنی تقریبا بارہ سال بعد یہاں کے پیدائشی کینڈین کے بر ابر پہنچتی ہے۔ یعنی اس کی جد و جہد طویل اور دشوار ہوتی ہے اور پھل دیر سے نصیب ہو تا ہے حالانکہ پچھلے کئی سالوں سے کینیڈا میں زیادہ تر امیگرنٹس 45 سال سے کم عمر کے ہی لئے جاتے ہیں اور وہ بہترین دماغ اور صحتمند جسم والے ہی ہو تے ہیں (جب آتے ہیں تو)۔
2019میں تقریبا 8,27,586 انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کینیڈا کی یو نیورسٹیز اور کالجز میں آئے اور ان میں سے 58000نے یہاں کی شہریت حاصل کر لی۔ یہ سٹوڈنٹس ہر سال ۱۲ بلین ڈالرز، کنیڈین معیشت میں شامل کر نے کا باعث ہو تے ہیں۔ اب یہ جو نوجوان خون یہاں آتا ہے تو وہ یہاں کے نظام سے فائدے کم اٹھاتا ہے بلکہ اس کی ذات سے اووروں کا زیادہ بھلا ہو جا تا ہے۔
اب تو کینیڈا کے دور دراز علاقوں کو بھی امیگرنٹس ہی آباد کر رہے ہیں۔ 1997میں دس میں سے کوئی ایک امیگرنٹ اونٹاریو،برٹش کولمبیا یا کیوبک سے باہر جا تا تھا اب دس میں سے چار امیگرنٹس باہر کے کم غیر آباد صوبوں میں جاتے ہیں۔
وہ سب نوکریاں جوکینیڈا میں پیدا ہو نے والے لوگ قبول نہیں کرتے وہ یہ امیگرنٹس کر تے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک تہائی امیگرینٹس والنٹئیرورک کرتے ہیں، ان کے پاس کینیڈین تجربہ نہیں ہو تا ہے تو اس کے لئے بھی یہ ایک ضرورت بھی بن جا تی ہے۔ دو تہائی امیگرنٹس یہاں کی سوشل آرگنائزیشنز میں بھی کام کرتے ہیں۔یہ سب اعداد و شمار گورنمنٹ آف کینیڈا کی اپنی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ایسے میں اونٹاریو کے پر یمئیر کا یہ بیان انتہائی فضول اور بلا ضرورت لگتا ہے کہ آنا ہے تو یہاں آکر دبا کر کام کر ناہوگا۔ اگر امیگرنٹس یہاں نہ آئیں تو آپ کا کام یہاں کے پیدائشی لوگوں کے ساتھ کیسے چلے آپ بھی جانتے ہیں۔اور جتنا زیادہ کام امیگرنٹس کرتے ہیں وہ آپ کے بھائی راب فورڈ کے بیان سے ہی ثابت ہو جا تا ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ؛”امیگرنٹس بہت زیادہ کام کرتے ہیں ہیں یہاں تک کے سوتے بھی اپنی مشینوں کے پاس ہیں۔”
ان ہی امیگرنٹس نے فنڈ ریزنگ کر کر کے یہاں کے ہسپتالوں میں وارڈز بنوائے ہیں۔ ایک مثال دیکھئے؛ برامپٹن ہسپتال کے لئے سکھ کمیونٹی نے پانچ سالوں میں دس ملین کا فنڈ اکٹھا کر کے ہسپتال کو دینے کا عہد کیا تھا۔ جس میں سے ریڈیو تھون اورفنڈ ریزنگ ڈنر سے3.4 M اسی وقت اکٹھا کر بھی لیا تھا اس کے علاوہ، 2.5ملین ہند و کمیونٹی نے اور ایک ملین مسلمان کمیونٹی نے بھی دیا۔
یہاں کی سیاست میں بھی امیگرنٹس کا اہم کردار ہے۔ پارلیمنٹ میں ٹوٹل 338ممبران ہیں جن میں سے 41ایسے ہیں جو کینیڈا میں پیدا نہیں ہو ئے۔
اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ہجرت کر نا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ تھکا دینے والا سفر ہے۔ کوئی راستے میں تھک کر بیٹھ بھی سکتا ہے۔ یہ ملک جس کا نعرہ ہی انسانی حقوق کی برابری، انصاف اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے، اس ملک کی فضاؤں میں تفریق کا گند گھولنے کی کوشش نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔
کینیڈا ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں بھانت بھانت کے پھول اپنے اپنے رنگ اور اپنی اپنی خوشبو کے ساتھ اکٹھے مہکتے ہیں۔ اس کو لوگوں کو تقسیم کرتے ہو ئے سیاسی بیانات سے آلودہ کر نے والوں کی ہر کوشش قابل ِ مذمت اور قابل ِ نفرت ہی رہے گی۔ بے شک یہ کہہ لیا جائے کہ ڈگ فورڈ کے بیان کو مخالفین توڑ مڑوڑ رہے ہیں مگر یہ بات ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ کنزروییٹیو کے دلوں میں امیگرنٹس کے لئے ایک بغض معاویہ ضرور رہتا ہے۔ جسے انگلش سپر میسی کی بیماری بھی کہا جا سکتا ہے۔۔ اور اس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
تحریر:روبینہ فیصل