ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہندوستان سے بہت سے نوجوان روزگار کی تلاش میں بحری جہازوں کے ذریعے کینیڈا اور سان فرانسسکو چلے جاتے تھے۔ اس وقت شمالی امریکہ میں، افریقہ سے غلام بنا کر لائے گئے سیاہ فام انسانوں کے ساتھ بدترین نسلی امتیاز کیا جاتا تھااور بالکل یہی سلوک ہندوستانیوں کے ساتھ بھی ہو تا تھا۔ وہاں پہنچنے والے ہندوستانیوں کو یہ احساس ہو ا کہ چونکہ ان کا تعلق ایک” غلام ہندوستان” سے ہے اس لئے ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک ہو رہا ہے کیونکہ حکومت ہند ان کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں کرتی ہے۔
اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ہندوستانیوں نے 13اپریل 1912کو ایک تنظیم یونین آف دی انڈین ورکرز آف پیسیفک کوسٹ قائم کی اور وہیں سے ایک اردو ہفت روزہ اخبار” غدر” نکالا جو بعد میں اور بہت سی ہندوستان کی زبانوں میں بھی شائع ہو نے لگا۔
” غدر ” میں ہندوستانی عوام کو درپیش مسائل لکھے جاتے اور اسے بحری جہازوں کے ذریعے ہندوستان بھیجا جا تاتھا۔
اس دور میں یورپ اور امریکہ میں مزدوروں میں سوشلسٹ خیالات مقبول ہو رہے تھے۔ غدر پارٹی کے کارکنوں کو بھی اسی میں ہندوستان کے مسائل کا حل نظر آرہا تھا۔ آگاہی کی اس تحریک کو کسی نے اس تحقیر کے ساتھ روک دیا ہو تا کہ تم لوگ تو بھاگ گئے ہو، اب ہندوستان کے حالات میں مت بولو۔۔۔۔ تو سوچیئے ہندوستان میں آزادی کا شعور کہاں سے آتا؟ حکومتی تشدد اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کہاں سے آتی؟۔
یہ بات مجھے اس لئے یاد آئی کہ آج کل پاکستان کے زیادہ تر دانشوروں اور صحافیوں (خاص کر کہ جن کو عمران خان سے اللہ واسطے کا بیر ہے)کی تو پوں کا رخ بیر ون ملک پاکستانیوں کی طرف اس سوال کے ساتھ ہے؛
“آپ باہر بیٹھے ہیں، آپ پاکستان کے معاملات میں بولتے ہیں کیوں ہیں؟ آپ پاکستان کو بھول کیوں نہیں جا تے ہیں؟ “
ڈرو اس دن سے جب اوور سیز پاکستانی واقعی پاکستان کو بھول کر باہر کی دنیا کی آسائشوں اور پر امن زندگیوں میں مگن ہو گئے۔
ہم جب کینیڈا آئے تو اس وقت یہاں موجود پاکستانیوں کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی نہ ہو نے کے بر ابر تھی بلکہ پڑھا لکھا طبقہ باقاعدہ اس سے بیزار تھا اور پاکستانی سیاستدانوں کا نام انتہائی حقارت سے لیا جاتا تھا۔ہم سب کینیڈا منتقل ہو نے کے بعد پاکستان کے ناانصافی پر مبنی کرپٹ نظام سے جان چھڑانے پر خوش اور مطمئن تھے مگر قدرت کو یہ اطمینان پسند نہیں آیا اور عمران خان کی صورت میں وورسیزپاکستانیوں میں امید کی کر ن جاگی اور وہ اس دن کے خواب دیکھنے لگے جب ان کی پاکستانی قومیت کو بیرونی ممالک میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور وہ جب انصاف، برا بری اور عدل پر قائم معاشروں سے اٹھ کر اپنے آبائی وطن جائیں تو وہاں بھی ایسا ہی ماحول دیکھیں گے اور کون جانتا ہے کہ ہجرت کا کر ب جھیلنے والے تھک ہارکر واپس اپنے گھونسلے میں ہمیشہ کے لئے لوٹ ہی جائیں۔
عمران خان نے جب مُردوں کو زبان دی اور کہا بول کہ لب آزاد ہیں تو ا سے بد تمیز اور بد زبان کہا گیا اور اس پر یہ الزام لگ گیا کہ نئی نسل کو
بد تہذیبی سکھا رہا ہے۔ میں جب بھی یہ بات سنتی ہو ں مجھے کرشن چندر کے افسانے کی یہ لائن یاد آجاتی ہے؛ “یہ نئی تہذیب ہے جہاں منافقت کو خوش اخلاقی اور سچ بولنے والے کو بد زبان کہا جاتا ہے “۔
عمران خان نے ملک کے نوجوانوں کو سوال کر نا اور جرات سے کھڑا ہو نا سکھایا۔ اس نے اس کنوئیں میں ٹارچ کی روشنی پھینکی، جہاں جہالت، بے ضمیری اور بے شرمی کا اندھیرا تھا۔ اُس نے اس کنوئیں میں پتھر پھینک کر انتشار بر پا کر دیا جہاں کے ٹھہرے پانی میں دو خاندانوں کی بادشاہت کے آگے کیڑے مکوڑوں کاسر جھکائے رکھنے کا رواج تھا۔ اس نے کیڑوں کو کہا رینگنا تمہارا مقدر نہیں ہے تم اپنے پر استعمال کرو اور اڑ کے دکھاؤ۔ کیڑے اڑنے لگے تو وہ ہاتھ لر زنے لگے جنہوں نے بوسیدہ اور فرسودہ نظام کو اپنے جھکے اور بکے ہو ئے قلم کے سہارے اٹھا رکھا تھا۔ ان آوازوں میں اوورسیز پاکستانیوں کی آواز بھی شامل ہو ئی تو وہ اور بھی بوکھلا گئے اور انہیں لگا یہ باہر سے بہتا ہوا شعور ان کے ملک میں درآمد ہو تا رہا تو ان کے غلامی کے چھابے کا کیا بنے گا؟۔ وہ جوپاکستانی عام عوام کو اپنے پر وپیگنڈہ کے زور پر نچا نا چاہتے تھے، وہ بوکھلا گئے کیونکہ انہیں اپنے مفادات کے حساب سے تشکیل دئیے ہو ئے نظریات اور خیالات میں یہ والی غیر ملکی مداخلت ہر گز پسند نہیں آئی ۔۔
اسی وجہ سے وہ ر اوورسیز پاکستانیوں کو طنز سے چھلنی کر نے کو شش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اتنا درد ہے تو واپس کیوں نہیں آتے۔ہمارے ایک دوست کینیڈا کے شہری ہو نے کے باوجود اپنے بال بچوں کو لے کرپاکستان مستقل رہنے کے لئے گئے مگر لاکھ کوششوں کے باوجود اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور واپس کینیڈا آگئے۔ ایسے کتنے ہی پاکستانی ہیں جو وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں مگر اس زمین کو ان کے لئے دوسرا سیارہ بنا دیا گیا ہے۔
ایک بنیادی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ اہل ِ قلم اس وقت سوئے ہو ئے تھے جب دنیا کے ہر ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی جماعتوں کے دفاتر تھے۔ کیا تب پاکستان کے ان ٹھیکے داروں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ان پارٹیوں سے پو چھیں کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے چیپٹڑز باہر کے ممالک میں بنانے کی کیا تُک ہے؟ تب یہ سب دم سادھے پڑے رہے اور چائے کی پیالی میں ابال پی ٹی آئی کی بیرون ملک مقبولیت دیکھ کر اٹھا اور اتنا اٹھا کہ اب یہ لوگ بیرو ن ملک پاکستانیوں پر تنقید کرتے ہو ئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ پاکستان کا کتنا بڑا اثاثہ ہیں۔
اے پاکستان کے ٹھیکے دارو!کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان کے ٹوٹل جی ڈی پی کا دس فیصد حصہ غیر ملکی ترسیلا ت کا ہو تا ہے؟
کیا آپ نہیں جانتے کہ باہر محنت مشقت کر کے جو بیر ون ملک پاکستانی اپنے گھر والوں کو ہی سہی (یہی آپ کہتے ہیں نہ کہ آپ کون سا پاکستان کے بیت المال میں رقم بھیجتے ہیں۔۔ اس سے زیادہ سطحی دلیل میں نے اپنی زندگی میں نہیں سنی) جو رقم بھیجتے ہیں اس سے وہاں موجود لوگوں کی قوت ِ خرید بڑھتی ہے۔اکنامکس کا یہ چھوٹا سا اصول تو آپ نے پڑھ ہی رکھا ہوگا۔۔ (یا وہ بھی نہیں؟)
مگر یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہو تا ہے کہ تقریبا چھ ہزار ارب روپیہ پاکستان بھیجنے والے پاکستانیوں کو پاکستان کے معاملات میں رائے تک دینے پر سوکنوں کی طرح طعنہ زنی شروع کر دی جاتی ہے۔ اور حیرت تب ہو تی ہے جب ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں کو یہ پاک ارض ِ وطن نہ صرف بولنے بلکہ کھل کر حکمرانیاں کر نے کا حق دیتی ہے۔ تب ان دانشوروں کے قلموں کو سانپ سونگھ جا تا ہے۔
مزید شومئی قسمت دیکھئے بیرون ملک پاکستانیوں کی مداخلت پر اعتراض اٹھانے والے، بڑے ملکوں کی مداخلت پر اف تک نہیں کرتے، بڑے ملکوں کے تربیت شدہ ٹاؤٹ پاکستان میں حکمران بنا کر پیش کر نے پر انگلی اپنی دانتوں میں دبا کر کے بیٹھ جا تے ہیں اور ان غریب الوطن لوگوں پر، جو خون پسینہ ایک کر کے بیرون ملک بھی اپنے ملک کے وقار کا جھنڈا اٹھائے بیٹھے ہو تے ہیں اور ہر اس آواز کو لبیک کہتے ہی جو ان کے دل میں امید کی جوت جگاتی ہے۔ یہ اہل ِ قلم ان پر سنگدلانہ انداز سے حملہ آوا ر ہوتے ہیں مگراسی دوران اپنے بچوں کو بیرون ملک سیٹ کر رہے ہو تے ہیں یا کر چکے ہو تے ہیں اور خود پاکستان کی سر زمین سے پیسہ اینٹھ رہے ہو تے ہیں۔
ہم باہر کے ملکوں میں بسنے والے جفاکش لوگ اپنے بچوں کی تربیت یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ;
” ہم پر پاکستان کا قر ض ہے اور تم لوگوں نے کسی نہ کسی صورت اسے لٹانا ہے۔”
اوراسی تر بیت کی وجہ سے آج پاکستان میں چھوٹے چھوٹے علاقوں سے بیرون ملک گئے ہو ئے لوگ، اپنے پیسوں سے وہاں کی سڑکیں پکی کرواتے ہیں، نل لگواتے ہیں، کنوئیں کھدواتے ہیں، ہسپتال، ڈسپنسریاں سکول بنواتے ہیں حالانکہ غربت تو ایک عالمگیر مسئلہ ہے یہ کام کوئی بنگلہ دیش، انڈیا، افریقہ بھی کر سکتا ہے مگر ہر کو ئی اپنے وطن کے لئے کر نا چاہتا ہے اور کرتا ہے۔
یہ سب اس مٹی کا قر ض اتارنے کی لئے کو شاں رہتے ہیں جس مٹی میں انہوں نے آنکھ کھولی، تعلیم پائی اور زندگی کو محسوس کیا مگر ہمارے قلمکار دوست اس مٹی کو بیچ کر کھانے والے ڈائنا سورز کو تو عزت سے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں مگر ہمیں کہتے ہیں ابے چپ کر، بولتا ہی کیوں ہے؟
اور پھر جب یہ خودغیر ملکی دورے کرتے ہیں تو ہم ہی غریب الوطن ان لوگوں کو وطن کی مٹی کی خوشبو ساتھ لانے کے بدلے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ورنہ کیا پاکستان کے گلوکار، سیاست دان، صحافی، دانشور یہاں کینیڈا کی حکومت کے دعوت ناموں پر یہاں آتے ہیں؟۔
ڈاکٹر قدیر خان ، بھی ایک اوورسیز پاکستانی ہی تھا ناجس کی وجہ سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ یہ ذالفقار علی بھٹو کی سوچ تھی کہ ملک کے لئے کار آمد لوگوں کو واپس بلا لیا جائے۔ یہ اسی کی سوچ تھی کہ باہر کے ملکوں میں ٹیلنٹ کو بھیج کر زر ِ مبادلہ کمایا جا یا۔
ہر دیدہ ور لیڈر جانتا ہے کہ ہجرت کا کرب جھیلنے والے یہ غریب الوطن ہر طرح سے ملک کے لئے اثاثہ ہو تے ہیں۔ ان کی قدر کی جاتی ہے مگریہ کہتے ہیں ہم پاکستان میں ہو نے والی کھلی بد معاشی کے خلاف جلوس بھی نہ نکالیں، جہاں رہ رہے ہیں ان کے وفادار رہیں۔
سنیں جی!کینیڈا،امریکہ دوہری شہریت کو منع نہیں کرتے، نہ پاکستان منع کرتا ہے ہم بیک وقت دونوں ملکوں کے شہری رہ سکتے ہیں اور اس سے بالاتر ہم پو ری دنیا کے شہری ہیں اس ناطے جہاں بھی ظلم اور نا انصافی کو دیکھیں گے چیخیں گے اور احتجاجی جلوس بھی نکالیں گے۔
پاکستانی سیاست پر امریکہ کے سابق سکریٹری سٹیٹس اور صحافیوں نے جو کچھ لکھا آپ اسے تو بڑے فخر کے ساتھ قوٹ کر تے ہیں مگر یہی بات بیرو ن ملک پاکستانی اپنی زبان اردو میں لکھیں تو آپ سیخ پا ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے آپ کی علمیت اور عام پاکستانی کی غفلت دونوں ختم ہونے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے؟
یہاں پر فلسطین، کشمیر، جہاں جہاں ظلم ہو تا ہے اس کے خلاف پر امن احتجاج ہو تے ہیں۔ یہاں اس بات پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ ورنہ آپ کے بس میں ہو تو اس پر بھی پابندی لگا دیں مگر کیا کیا جائے آپ کی نوابی صرف پاکستان تک ہی چل سکتی ہے۔
جب نر یندر مودی کینیڈا آیا تھا تو یہاں رہنے والی سکھ کمیونٹی نے اس کے خلاف بھر پوراحتجاج کیا تھا۔ کیا کسی دانشور نے کہا کہ گجرات میں ہو نے والے مسلمانوں کے قتل سے یا سکھوں کے ساتھ ہو نے والی اناانصافی سے یہاں رہنے والے ہندوستانیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے تم لوگوں کا احتجاج کر نے کا کوئی حق نہیں ہے؟۔
یاد رہے کہ پرندے، آرٹسٹ اور پروفیشنلز، کے لئے پو ری دنیا ایک وطن ہو تی ہے۔ ہر ملک اچھے اور محنتی دماغ لینا چاہتا ہے۔ رز ق کی تلاش کے لئے اور جان و مال کی حفاظت کے لئے آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں بس سکتے ہیں، شر ط یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملک آپ کو ویلکم کر نے کو
تیا ر بھی ہو، اگر آپ اپنے ڈیڑ ھ فٹ قد اور بالشت بھر سوچ کے ساتھ کہیں اور قابل ِ قبول نہیں تو پاکستان کی فضا کو اپنی محدود سوچ، تنگ نظری اورتعصب سے آلودہ تو نہ کریں۔ اور اگر کوئی باہر کے ملکوں سے ٹھنڈی ہوا بھیجنا چاہتا ہے تو جلنے مرنے کی بجائے لوگوں تک وہ ہواپہنچ جانے دیں۔ اگر بیرون ملک رہنے والوں کو صرف اے ٹی ایم کی بجائے تھنک ٹینک بھی سمجھ لیا جائے توکوئی برائی تو نہیں مگر اس کے لئے دل اور دماغ دونوں میں کشادگی کی ضرورت ہے جنہیں حسد اور بغض نے سیاہ کردیا ہے۔