حسن عباس نے اپنی کتاب Pakistan’sDrift Into Extremismمیں جنرل اختر حسین ملک کا اپنے چھوٹے بھائی لیفٹینٹ جنرل عبدل علی کے نام یہ خط جس پر 23.11.67 کی تاریخ درج ہے اور ی جو انہوں نے ا نقرہ (ترکی)سے لکھا تھا، جب انہیں وہاں پر1965 کے بعد ایمبیسیڈر بنا کر بھیج دیا گیا تھا، چھا پا ہے۔ یہ اس سے پہلے کہیں پبلش نہیں ہوا تھا۔
ترجمعہ
میرے پیارے بھائی؛
امید ہے کہ تم اور باقی سب خیریت سے ہونگے۔ تمہارے 14 اکتوبر 1967کو لکھے گئے خط کا شکریہ۔ جس میں تم نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے ہیں ان کے جوابات حاضر ہیں؛
ا: جب ہم نے چھمب کے علاقے کو آزاد کر وا لیا تو ایک دم سے، عظمت حیات کے ساتھ میرا وائرلیس رابطہ ختم ہو گیا۔ میں، ذاتی طور پر اس کے ہیڈ کوارٹرز ڈھونڈتا رہا۔پھر میں نے سہ پہر کے وقت اپنے ملٹری پولیس آفیسرز گلزار اور وحید کو انہیں ڈھونڈنے بھیجا مگر وہ بھی ناکام رہے۔ اگلے دن جب میرا عظمت سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے شرمندگی سے کہا وہ یحیی کا بر گیڈئیر تھا۔اس بات کے بعد مجھے رتی برابر بھی شک نہ رہا کہ کل یحیی نے اسے ہدایات دے دی تھیں کہ وہ مجھ سے آرڈر نہیں لے گا حالانکہ کمانڈ کی رسمی تبدیلی بھی ابھی نہیں ہو ئی تھی۔ یہ کئی زوایوں سے بے وفائی کی ایک داستان ہے۔
۲: میں نے یحیی کو نہ صرف سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی بلکہ میں نے اس کی منت سماجت بھی کی اور اسے یہاں تک کہا کہ اگر وہ صرف جیت کا کر یڈٹ بھی لینا چاہتا ہے تو وہ ساری کمانڈ لے لے، مگر مجھے اپنے انڈر ہی سہی مگر اکھنور تک ساتھ لے جاؤ۔ مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ پورا جنگ کا منصوبہ ہی تبدیل کر دیا۔ وہ اپنا سر ٹروٹی کے مقام پر ہی پٹختا رہا، یہاں تک کہ ہندوستانی فوجیں دوبارہ اکھنور تک پہنچ گئیں۔ ہم پہلے دن ہی جنگ کی ابتدائی کاروائی کرنے کا حق کھو چکے تھے اور اسے کبھی دوبارہ نہ پا سکے۔ بالاخر ہمارے چوویندا پر اشد موقف نے ہندوستانی فوجوں کی کاروائی کو تھوڑا کم کیا۔
۳؛اس کے بعد کبھی بھی ایوب،موسی یا یحیی نے مجھے اس طرح اچانک کمانڈ سے ہٹائے جانے کی وجہ نہیں بتائی۔ وہ سب کے سب شرمندہ تھے۔ مجھے لگتا ہے میرے مرنے کے بعد ہی مجھے ہٹائے جانے کی وجہ منظر ِ عام پرآسکے گی۔
۴؛جبرالٹر آپریشن شروع کرنے سے پہلے، پاکستانی نواز کشمیریوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ میرا ہی فیصلہ تھا۔ جبرالٹر کا مقصد، کشمیر کے دم توڑتے مسئلے کو پھر سے زندہ کرنا اور دنیا کے سامنے لانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یہی شرط بہت اہم تھی کہ سی ایف ایل (سیز فائر لائن) پر ہمارے ہزاروں سپاہیوں کی در اندازی انتہائی خفیہ رہے۔ اس بات پر میں ہر گز سمجھوتہ کر نے کو تیار نہیں تھا کیونکہ ایک بھی ڈبل ایجنٹ ہمارے پو رے منصوبے کو ناکام اور مردہ کر سکتا تھا۔
۵؛حاجی پیر پاس سے مجھے کچھ زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ کیونکہ گرینڈ سلام کی وجہ سے ہندوستانی فوجوں کے لئے ناگزیر تھا کہ وہ حاجی پیر میں ہوں اور ہمیں اس بات کا فائدہ صرف اکھنور پر قبضے کے بعد ہی ہو سکتا تھا کیونکہ اس طرح انہیں اس ناگہانی کا سامنا کر نے کے لئے وہاں سے نکلنا ہی پڑنا تھا اور جو علاقے انہوں نے حاصل کئے تھے ان سے ہاتھ دھونا پڑجاتے۔ اور اس طرح ہمیں آپریشن جبرالٹر کا بھی پو را فائدہ ملتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
۶:بھٹو اس بات پر مصر رہا کہ اس کے ذرائع نے یہ یقین دہانی کروائی ہے اگر ہم انٹرنیشنل سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کر یں گے تو ہندوستان ہم پر حملہ نہیں کرے گا۔مجھے بہر حال اس بات کا کامل یقین تھا کہ اگر جبرالٹر ہوتا ہے تو یہ اعلان جنگ ہو گا اور میں نے یہ بات جی ایچ کیو کو بتا رکھی تھی۔ اور اس کے لئے مجھے کسی خفیہ ادارے کی رپورٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کامن سینس کی بات تھی کہ اگر میں کسی کا گریبان پکڑوں گا تو میں بے وقوف ہو ں گا اگر یہ سوچوں گا کہ اس کے بدلے وہ مجھے چومے گا۔اور کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جنگ ضرور ہو گی اور ا سی لئے “گرینڈ سلام “کے لئے میرے مد ِ نظر جموں کا علاقہ تھا کیونکہ اسی سے ہم اپنی کامیابی کو استعمال کر تے ہو ئے کشمیر یا سامبا، جیسا بھی موقع ہو تا اس کے حساب سے اسی کو حاصل کرتے۔دونوں صورتوں میں چاہے جموں ہو یا آکھنور، ان پر ہمارے قبضے کے بعد، میں دیکھتا انڈین فوجیں کیسے سیالکوٹ پر حملہ آوار ہو تیں؟
۷:میں نے اس سب پر کتاب لکھنے کے متعلق بہت سنجیدگی سے غور کیا تھا اور وہ کتاب بالکل سچ ہو تی۔ اور اس پر جو رد ِ عمل ہو تا وہ میری زخمی انا کی تسکین کے لئے کافی ہو تالیکن دور اندیشی سے سوچا تو یہ بات مجھے محب وطنی کے جذبے کے خلاف لگی۔یہ سچ فوج کے مورال کو گرا دیتا،عام لوگوں کی نگاہوں میں فوج کے ادارے کی عزت کم ہو تی، پاکستان میں اس کتاب پر سرکاری پابندی لگ جا تی اور ہندوستان میں اسے سکولوں کے نصاب میں شامل کر دیا جاتا۔مجھے اس بات میں بھی رتی برابر شک نہیں کہ انڈیا 65کو کبھی بھولے گا اور ہم سے موقع ملتے ہی ا س بات کا بدلہ نہیں لے گا۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں مشرقی پاکستان میں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اور ہم صرف اپنے دفاع کی کوشش میں لگ جائیں گے۔ اب گرینڈ سلام کا پہلا دن بہت سی صورتوں میں ہمیشہ تباہ کن رہے گا۔ ابھی توبدترین صورتحال آنے والی ہے اور ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔ اس لئے سمجھو کتاب آچکی ہے۔
مجھے امید ہے کہ تمہیں اس خط سے کہانی کا خلاصہ مل گیا ہو گا۔ اور ہاں ایوب اس سارے قصے میں شامل تھا۔ بلکہ حقیت میں یہ اسی کا آئیڈیا تھا۔اور یہ اسی نے مجھے جبرالٹر آپریشن کی منصوبہ بندی کے دوران موسی کو بائی پاس کر نے کا حکم دیا تھا۔ اس آپریشن کے لئے، میں موسی کی بجائے شیر بہادر اور صدر ایوب کے ساتھ برا ہ راست رابطے میں رہتا تھا۔المیہ یہ ہے کہ وزیر ِ خارجہ ذالفقار بھٹو، ایک انتہائی ملٹری دماغ رکھنے کے باوجود ہار ماننا چاہتا تھا۔اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ ہار سے پہلے ہی ہار مان لی گئی تھی یا وہ آخری فتح کا جشن منا رہے تھے۔
اگر تمہیں اور معلومات چاہیئں تو مجھے اس کے لئے جنگی ڈائریوں اور نقشوں کی ضرورت ہو گی۔ اگر ہو سکے تو ڈپلومیٹیک بیگ میں یہ سب سامان مجھے بھجوا دینا۔سب گھر والوں کو سلام۔
تمہارا،
اختر حسین ملک۔
ایم جے اکبر، انڈین صحافی نے اس سارے قصے کے بارے میں کہا تھا “کسی کی دعا رنگ لائی اور کمان میں ایک ناقابل ِ وضاحت تبدیلی کی گئی۔ “
جب اچانک جنرل موسی وہاں جا پہنچے اور جنرل اختر حسین ملک کی 12 ڈویژن کی کمانڈ، جنرل یحیی کے حوالے کر دی۔ جنرل ملک کو ہیلی کاپٹر میں سوار کیا اور واپس بھیج دیا گیا۔ اور یحیی نے اکھنور کو فتح کر نے کا منصوبہ ہی بدل دیا اور ایک بالکل مختلف راؤٹ اپنایا۔۔
جب ہم ۶ ستمبر کو یاد کر رہے ہیں تو اس میجر عزیز بھٹی کو اور ان جیسے کئی شہیدوں کو سلام پیش کر نے کے ساتھ ساتھ جنرل اختر حسین ملک جیسے جانبازوں آفیسرز کو بھی یاد کر لیا جائے جن کے بنائے گئے منصوبے محب وطنی اور جنگی فہم کا ثبوت تھے اور جن کی بصیرت بھی خوب تھی۔
جنرل اختر حسین نے جو انڈیا کی مشرقی پاکستان میں مداخلت اور بدلے کی بات کی تھی وہ وقت نے ٹھیک ثابت کی۔۔خط میں ایک اور بات لکھتے ہیں کہ” میری موت کے بعد شائید کو ئی اس کمان کی تبدیلی کی کوئی ٹھوس وجہ بتا سکے۔” یہ سچ ہے کہ ان کی زندگی میں اس معاملے پر خاموشی طاری رہی مگر 1969 میں ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد جی ایچ کیو نے اپنی طرز کی کئی کہانیاں بنائیں اور ان ہی کو مشہور کر دیا گیا۔
ہندوستانی لیفٹنٹ جنرل ہربخش سنگھ نے بھی آپریشن جبرالٹر کی تعریف کی تھی اور کہا کہ;
” یہ ایک شاندار منصوبہ تھا اور آپریشن سلام واقعی ہی slamہوتا اگر عین وقت پر کمانڈ تبدیل نہ کر دی جاتی۔ کمان کی تبدیلی ہندوستانی افواج کے لئے ایک رحمت ثابت ہو ئی۔ “
تو جب پاکستانی فوج کو گالی دی جاتی ہے تو ان محب وطن فوجیوں کو بھی یاد کر لیا کریں جنہوں نے اپنی زخمی انا کو اپنی ہی زبان سے چاٹ کر ملک کی عزت اور بقا کی خاطر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ جی ایچ کیو نے ان کے ساتھ جو بھی کیا، انہوں نے کتاب لکھ کر اپنے ادارے کو، اپنے ملک کو بیچا نہیں یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں کی وفاداریاں اور ان کے خون کو بیچ دیا گیا اور یہ فوج ہی کے جوان ہیں جنہوں نے ملکی وقار کی خاطر اپنا دل تک ہلکا نہیں کیا۔۔ اور خاموشی سے سر خم تسلیم کیا کہ ملک کا وقار بچا رہے۔
ہم پاکستانیوں میں وطن پرستی نہیں ہے،جو دوسروں کو کمتر سمجھتی اور نفرت سکھاتی ہے۔ ہمارے ہاں محب وطنی ہے جو کسی سے نفرت نہیں بلکہ ملک سے محبت سکھاتی ہے۔۔ exceptions are always there
اپنے ملک سے محبت کی کئی مثالیں ہیں جن میں سے جنرل اختر حسین ملک ایک خوبصورت مثال ہیں۔ اور ان کی یہ بات کہ میرا سچ انڈیا کا نصاب بن جائے گا،ان سب کے منہ پر طمانچہ ہے جو ذرا ذرا سی بات پر ملک کو جگہ جگہ بدنام کرتے پھرتے ہیں۔
۶ ستمبر کے سب شہیدوں کو سلام۔۔ ہمارا ایک بہادر فوجی جوان،بغیر تیاری کے بھی ایک پو را شہر بچا سکتا ہے اور جی ایچ کیو کی ہائی کمان کا ایک نالائق حکم پوری فوج کو برباد کر سکتا ہے۔۔۔ یہ 65نے ثابت کر دیا تھا۔