Rubina Faisal

بینگن اور مولی وغیرہ

اشرافیہ(شریف کی جمع) کے پاس دو آپشنز تھیں یا تو وہ خود کچھ پڑھ لکھ جاتے یا اپنے سے کم پڑھے لکھوں کو بہت سا پڑھا لکھا ظاہر کر نے پر اپنی انوسٹمنٹ کرکے آگے لاتے اور عوام کے شعور کے ساتھ کھلواڑ کرتے۔انہوں نے دوسری آپشن کا انتخاب کیا اور کامیاب ہو ئے۔ اور یوں جن لوگوں کو دماغی علاج کی سخت ضرورت تھی انہیں اشرافیہ نے دانشور بنا کر عوام کے سر پر مسلط کر دیا۔

شریفوں اور مذید شریفوں (اسٹبلیشمنٹ)کے لگائے یہ ننھے ننھے بوٹے اب اتنے توانا ہو چکے ہیں کہ اگر ان کا تعلق فقط صحافت سے تھا تو وہ مدح سرائی کرتے کرتے اب اردو ادب کی اُس صنف میں داخل ہو چکے ہیں جسے قصیدہ گوئی کہتے ہیں اور اس طرح وہ ادب کے میدان میں بھی اپنے مالکوں کے آشیر باد سے آزادانہ ٹپوسیاں لگاتے پھرتے ہیں اور ان کو کوئی روکنے والا نہیں۔اور جن کا تعلق ادب سے تھا انہیں کالم نگار بنا کر پنجا ب کی اس ثقافت میں داخل کردیا گیا ہے جہاں وہ،” بھاگ لگے رہن، تہاڈے بچے جیون،تہاڈیاں جتیاں دے عوض ساڈے گھر وچ وی گوشت پکدا اے “جیسے جملے اپنے آقاؤں کی شان میں عملا کر کے دکھاتے ہیں یعنی وہ پنڈ کے میراثی کی روزگار پر بھی لات مار چکے ہیں۔

آج کی تاریخ میں پاکستان کا سادہ دانشور ہی برداشت نہیں ہو تا سوچئے اگر اس کے ساتھ ڈاکٹر اور صوفی ازم کی پخ بھی لگ جائے تو وہ کس قدرتوپ قسم کا نورتن ہو گا۔ڈاکٹر صغری صدف کے چار کالم اٹھا کر دیکھ لیں میرے ایک ایک لفظ کی تصدیق نہ ہو تو مجھے غدار اوور سیز ہی سمجھئے گا۔میں نے مادام کا نام ہی کیوں لکھا ؟ کیوں کہ ابھی کل پرسوں کی تاریخ میں ہی انہوں نے خود کواوو ر سیز پاکستانیوں کا بھی ماہر سمجھ کر پورا ایک کالم ٹکا دیا ہے۔

ہم پہ سختی کی نظر؟ہم ہیں فقیر رہ گزر

رستہ کبھی روکا ترا؟دامن کبھی تھاما ترا؟

مگر اب میں راستہ روک کے بتاتی ہوں۔۔۔۔۔۔

ان کے حالیہ کالم کا لب لباب یہ ہے کہ مادام،کچھ دن پہلے” کھانے کی ٹیبل “پر کچھ ایسے دھیمے لہجوں،مسکراتے چہروں ، جگمگاتی آنکھوں، اونچے آدرشوں اور پاکستان کے روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے چند اوور سیز پاکستانیوں سے ملیں تو حیران رہ گئیں کیونکہ انہیں تو ماضی میں مغرور اور غدار قسم کے اوورسیز پاکستانیوں سے ملنے کا تجر بہ تھا،جو بات بات پر انہیں طعنے دیتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ ان کے ڈالرز،پونڈز،ریال وغیرہ پر پل رہی ہیں (ان بدتمیزوں، ناہنجاروں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ اس کہ باوجود وہ غدار ہیں)۔تو ڈاکٹر صاحبہ کو احساس ہوا کہ اب وہ جن سے کھانے کی میز پر مل رہی ہیں وہ چالیس ملکوں سے آئے ہو ئے وہ شرفا ہیں جو نوازشریف کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو نے ہو نے والے اوور سیز کیسے اس کیٹیگری میں آسکتے تھے کیونکہ وہ تو “شریف” نہیں وہ تو “خان ہے کہیں کا۔۔”

مادام لکھتی ہیں یہ والے اوورسیز پاکستانی، پاکستان کو عظیم ملک دیکھنا چاہتے ہیں،تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر آگے بڑھیں،جمہوری نظام کی مستحکم پٹری پر جمہوریت کی گاڑی ہمیشہ رواں رہے۔ دو تین سال بعد نئی جماعتیں بنانے کے تجربے اور مستحکم حکومت کو ہٹانے کے حربے دفن کردئیے جائیں۔”

مادام! “کھانے کی میز والے اووسیز” یہ چاہتے ہیں اور جو اس کھانے کی میز پر نہیں تھے, جو نورتنوں کے اس قافلے کا حصہ نہیں تھے کیا وہ اس سب سے الٹ چاہتے ہیں؟ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا لیڈر، جو اپنی تو ند کو وفاداری کا انجکشن لگوا کر لندن سے پرواز کر کے نہیں آیا بلکہ اسی مدعے پر جیل میں بیٹھا ہے، وہ انہی اداروں سے ڈیل کر کے جو اپنی حد سے تجاوز کر کے جمہوری پراسس الیکشن، کو روکے ہوئے ہیں، جو انسانی حقوق کی کو قدموں میں روند کر آپ کے وفادار لیڈر نواز شریف اور اس سے پہلے سلیکشن کے ذریعے انہی کے چھوٹے بھائی کو لائے ہیں؟ کیا اس غیر جمہوری رویے پر باقی کے اوور سیز پاکستانی بلے بلے کر رہے تھے؟ وہ بھی یہی کہہ رہے تھے مادام!مگران کے الفاظ آپ کے جمہوری کانوں کو بدتمیزی لگتے ہیں تو انہی کم بختوں کا قصور ہو گا کہ ان کی رسائی کسی مفت کے کھانے کی میز تک نہیں ہوتی۔

آپ اسی” کاغذی کالم” میں فرماتی ہیں ان اوور سیز (عظیم اوورسیز) کی اپنے قائد سے محبت وطن کی محبت کی آئینہ دار تھی۔)باقی بدتمیزوں کی اپنے قائد سے جو “شریف “نہیں ہے ,محبت اُس کا حسن، سدا بہار جوانی،ترش زبانی، روا ں انگریزی کی وجہ سے ہے (۔پھر فرماتی ہیں یقینا یہ جمہوری جمہوری،پیاری پیار ی محبت ہی تو محبت ہے جو نواز شریف سے ہی ہو سکتی ہے دوسرے کی محبت تو بغاوت ہے غداری ہے کیونکہ وہ اداروں کے خلاف جانے پر مجبور کرتی ہے۔ (اس لئے باقی لوگ کلٹ ہیں،زومبی ہیں)۔

مادام!آ پ کا یہ جو شریف ہے جو بودی شودی وا کے اچھا بچہ بن کے چالیس ملکوں کے ذہین، فطین،اور وطن کی محبت میں ڈوبے اوور سیز ساتھ لایا ہے،سپریم کورٹ پر حملے سے لے کر، آپ کے پیارے جرنیلوں کو گالیاں دینے تک انتہائی معزز اور محب وطن رہا ہے یہاں تک کہ جب ان کے چھوٹے بھیا ان کے کہنے پر امریکی صدر بل کلنٹن کو آپ کے پاک ادارے کے خلاف چغلیاں لگا نے گئے تھے تو تب آپ کس کی مد ح سرائی میں مصروف تھیں؟

آپ کی ملک سے وفاداری کا ریکارڈ آپ کے تین کالموں میں ہی نظر آجاتا ہے۔۔

آپ کا تعلق چونکہ پنجاب سے ہے، اس لئے پنجاب کا ہر وزیر اعلی، ہر بیورکریٹ ہر نیا پرانا صوفی(جن کے نام کی لاج آپ یوں نبھا رہی ہیں کہ صوفی ازم کی صفت چڑھتے سورج کی پوجا لگنے لگ گیا ہے)آپ کے احاطے میں آتا ہے،اس لئے آ پ ان سب کی جی بھر کر مدح سرائی کرتی ہیں۔۔ آخر کو آپ ہی توپنجاب کی پاسبان ہیں۔

ثبوت حاضر ہے۔۔آپ اپنا کالم پڑھئیے جو چار اگست بیس اکیس کو جنگ اخبار میں لکھا تھا، جس میں عثمان بزدار ایک درویش صفت انسان تھا جوصوفیوں کی شاعری کے پیغام کو مقصد حیات بنا کر چل رہا تھاکبھی کیچڑ اچھالنے والوں کو پلٹ کر جواب نہیں دیتا تھا۔مادام! اگر وہ صوفیوں کی راہ پر چل رہا تھا توکیا آپ کی بھی یہی راہ ہے؟

پھرلکھتی ہیں کہ وہ مکمل اخلاص کے ساتھ انسانیت کے لئے بہت فائدہ مند کام کررہے ہیں۔ مادام نے خصوصی ذکر ماحولیات اور جنگلات کا کیا۔۔صوفی دلوں میں طہارت لاتے ہیں درخت ماحول میں ایسی باتیں لکھ کے آپ نے بزدار صاحب کو مذید صوفی رنگ میں رنگا۔ پھر خواجہ غلام فرید کا بھی حوالہ دیا، صوفیا کو ثقافتی ہیرو کہتے ہو ئے ہمیں باتوں باتوں میں بتایا کہ عثمان بزدار بھی کسی ثقافتی ہیرو سے کم نہیں کہ اس نے پچھلے تین سالوں میں ثقافتی پروگرام منعقد کروا کروا کے لاہور کو ملک کا دل ثابت کر کے ہی چھوڑا ہے۔ پھر ہمیں بتاتی ہیں اس سے پہلے پنجاب نے بیس پچیس سال بڑی سختی جھیلی ہے۔۔(یہ یاد رکھئیے گا)۔ اس کالم میں ان کے ساتھ کام کر نے والے بیورو کریٹس کے نام بھی چُن چُن کر لکھنا نہیں بھولیں۔۔۔

آگے چلتے ہیں چار جولائی بیس بائیس کا کالم ہے اور اب پنجاب کی سر زمین اپنے درویش صوفی انتہائی متحرک اور بہت سارے پراجیکٹ پر کام کر نے والے چیف منسٹر سے ہاتھ دھو چکی ہے، اب پیش ِ خدمت ہے اس خاندان کا چشم و چر اغ جس نے انہی بیس پچیس سال اس صوبے پر حکومت کی جسے محترمہ پچھلے کالم میں پنجاب کا بدترین دور کہہ چکی ہیں۔

مگر اب اس کالم میں لکھتی ہیں “گزشتہ چار سال کے دوران پنجاب کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہوئی اس کی پچھتر سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پنجاب کی ہر طرح کی ترقی کے آ گے بند باندھ دئیے گئے۔ جو کچھ موجود تھا اسے بے دردی سے بانٹا اور ضائع کیا گیا۔وہ صوبہ جو پورے ملک کی غذائی ضروریات پو ری کرتا تھا ایسا مر جھایا کہ گندم، چینی اور تیل سمیت مختلف غذائی اشیاء درآمد کر نے کی نوبت گئی۔ سوائے” ممی ڈیڈی کلاس “کے، کسان، تاجر،مزدور، ملازمین اور سفید پوش سب پریشان تھے۔”

پھر ان کے سر پر کوئی پتھر پڑا یاداشت واپس آئی اور اپنے صوفی عثمان بزدار کویہ کہہ کر صاف بچا گئیں کہ اس معصوم کو کیا پتہ تھا اسے وہ چیز پکڑا دی گئی جس کی اسے الف ب بھی نہیں پتہ تھی اور وہ ساد ہ انسان تو خود کہتا تھا کہ” وہ تو ٹریننگ پر ہے۔۔”اس بچارے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جارہی تھی۔ کاغذوں پر دستحظ اس کے ہو تے تھے، مگر حکمت اور حکم کسی اور کا ہوتا تھا، ان پردہ نشین کرداروں (مادام کا اشارہ خلائی مخلوق کی طرف نہیں بلکہ باپردہ خاتون کی طرف ہے) نے جس طرح پنجاب کے ساتھ کھلواڑ کیا وہ سب پر عیاں ہے “

مادام! مادام! تو وہ جو پچھلے کالم میں آپ نے فرمایا تھا، پنجاب کی ترقی، درخت، ثقا فت وغیرہ وہ کسی پردہ نشین کی حکمت اور حکم سے ہو رہے تھے یا وہاں آپ کے درویش، آپ کے صوفی، آ پ کے ملنگ اپنی ہی بندو ق اپنے کندھے پر رکھتے تھے؟

پھر حمزہ شریف کو اپنے کالم میں بتاتی ہیں کہ پنجاب کا زیادہ تر بجٹ جنوبی پنجاب کے لئے مختص ہو تا رہا مگر وہاں بھی کوئی قابل ِ قدر کام نہیں ہوا اور نہ تبدیلی نظر آئی۔ کاش جنوبی پنجاب کے لئے مختص رقوم وہاں خرچ بھی کی جاتیں اور کاغذوں پر موجود منصوبے عملی طور پر دکھائے دیتے تو بھی غنیمت تھا “۔۔مادام! آپ جانتی ہیں نا کہ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔۔یہ بھی یقینا پردہ نشین کی خواہش ہو گی۔۔ ان دنیاوی آلائشوں سے آپ کے درویش کا کیا تعلق ہوگا بھلا؟۔۔

اچھا اسی کالم میں ایک مزے کا جملہ ہے کہ” پنجاب کو کب تک مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی سزا دی جاتی رہے گی؟”ویسے مادام یہ جو آپ نے تیسری چوتھی قوت کا ذکر کیا ہے جو یہ سزا دیتی ہے اور پنجاب کی ترقی کے راستے مسدود کردیتی ہے اس قوت کا نام کیا ہے؟ اگر تو وہ قوت وہی ہے جو میں سمجھی ہوں تو آپ اس ادارے کی توہین کی مرتکب ہو رہی ہیں جس کے خلاف سوال اٹھانے کی وجہ سے ہم اوورسیز اور پاکستان کے ممی ڈیڈی برگر غدار قرار دئیے جا رہے ہیں تو کیا آپ بھی ہماری کشتی میں سوار ہو نے کی کوشش کر رہی ہیں؟

کیا اسی وجہ سے آپ دوسرے ممالک میں بیٹھے پاکستانی سفیروں سے اچھے تعلقات رکھتی ہیں کہ وہ آپ کو بیرون ملک بیٹھے ” مغرور اور غدار پاکستانیوں ” سے ملاقات کا موقع دیں اور آپ ہم جیسی بن جائیں؟

آپ نے بڑی دردمندی سے بتایا کہ پنجاب کے بھٹوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی کسی کو خبر نہیں، بس لوگ باتیں کرتے ہیں یہ خبر صرف حمزہ شریف کو ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے باپ کی طرح متحرک ہیں۔ (یقینا خبر کے بغیر کون مزدوروں کو زندہ بھٹہ میں جلا سکتا ہے)۔

پھر پنجاب کے وزیر اعلی پرویز الہی بنے تو چودہ نومبر بیس بائیس کوگجرات کی قسمت چمک اٹھی۔مادام کی قصیدہ خوانی کی ایک خاص صفت ہے کہ وہ جس شخص کی مدح سرائی کرتی ہیں اس کے علاقے کی اس سے بڑھ کر کرتی ہیں۔ اس کے بغیر ان کا کالم شروع نہیں ہو تا۔ اس کالم میں گجرات کی بے تحاشا تعریفوں کے بعد پرویز الہی کی معاملہ فہمی اور واشگاف حکمت ِ عملی نے بھی انہیں ورطہ حیرت میں ڈالااور وہ ایک دفعہ پھر سے اپنی یاداشت کھو بیٹھیں جہاں غاصب بیس پچیس سالوں میں اس گجراتی سی ایم نے بھی حصہ ڈال رکھا تھا۔

قاسم علی شاہ جب الحمرا آرٹ کونسل کا چئیر مین بنا تو مادام نے ساری صوفی ازم اس کے گرد گھما دی۔۔اب کوئی اور اور آرٹ کلچر اور صوفی بن کے تو دکھائے۔۔ (قناعت کی تلقین دوسروں کو کریں روپیہ، عہدہ اپنے پاس اکٹھا رکھیں۔۔ یہی درویشی ہے بھیا۔)

ابن انشا یونہی یاد۔۔نظم ۔۔۔۔

یہ کیا ہے؟

یہ بینگن ہے

یہ کون سا بینگن ہے

یہ تھالی کا بینگن ہے۔لڑھکتا رہتا ہے۔تبھی تو ہر موسم میں ترو تازہ رہتا ہے۔

یہ کیا ہے؟

یہ مولی ہے۔

یہ کس کھیت کی مولی ہے؟

یہ ہر کھیت کی مولی ہے،کبھی اس کھیت میں، کبھی اُس کھیت میں۔۔۔۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top