دیر آید

اس کا یکدم ہی دنیا سے جی اچاٹ ہو گیا۔ اس کا نام الف۔ ب،پ کسی سے بھی شروع ہو سکتا ہے۔۔نام اور چہرہ آگے پیچھے ہونے سے انسان کے دکھ جھیلنے کے اور کرب سہنے کے راستے اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں مگر منزل نہیں اور یہ جو لفظ” یکدم “ہے حقیقت میں یہ” یکدم “نہیں ہو تا بالکل اسی طرح جس طرح بچہ” اک دم “سے پیدا ہو بھی تو وہ” اک دم” نہیں ہو تاہے، یا کوئی درخت یکدم آپ کینظروں میں آجائے تو وہ بھی یکدم سے ہی تناور نہیں ہو ا ہوتا۔بارش کو برسنے کے لئے بھی ایک عرصے تک بادلوں کے اکھٹا ہونے کا انتظار کرنا ہوتا ہے اورآنسوؤں کے لئے بھی دل کا پہلے بہت سا بھرجانا ضروری ہو تا ہے۔ تو یہ” یکدم “بھی بس ایسا ہی” یکدم” تھا جس کے پیچھے سالوں کی گھٹن، کثافت اور دباؤ تھا اب جسے دبانا یا چھپانااس کے اختیار میں نہیں رہا تھا او ردیکھنے والوں کو یہی لگا کہ جیسے اس کا دل دنیا سے یکدم ہی اچاٹ ہو گیا ہے۔۔وہ بستر پر لیٹتی تو لیٹی ہی رہتی اس کا اٹھنے کو دل نہ کرتا، وہ کتاب کھولتی تو ایک ہی لائن پر گھنٹوں نظریں جمائے بیٹھی رہتی،وہ ٹی وی دیکھنے کی کوشش کرتی تو مزاحیہ پروگرام دیکھتے ہو ئے سوچتی کہ لوگ اتنی تاریک، غموں میں ڈوبی دنیا میں کیسے ہنس سکتے ہیں۔ لوگوں کی اس بے حسی اور بے نیازی پر اسے ہر کامیڈی پروگرام ٹریجک لگنے لگتا اور روتے روتے اس کی ہچکی بندھ جاتی۔اس کے برعکس جب وہ کوئی ٹریجڈی دیکھتی تو اس کو ہنسی آنے لگتی کہ کیسے مختلف چہرے بنا کر اور ہر چہرے کو ایک مختلف نام دے کر قدرت انسان کی حماقت سے بھر پور فائدہ اٹھارہی ہے، روتے چہروں کو دیکھ کر وہ سوچتی کہ ہر دکھ سہنے والے کو یہی لگتا ہے کہ اسی کا دکھ سب سے بڑا اور ناقابلِ برداشت ہے اور باقی دنیا ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ کتنا بڑا مذاق ہے جو سب ٹریجڈی میں لپیٹ کر خود سے اور ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں۔اور یہی لوگ کبھی کبھار یا ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنے چہرے اور قسمت کا اچھا روپ دکھا کر دھوکہ دیتے ہیں اور اگر جان بوجھ کردھوکہ نہیں بھی دیتے توبھی فطرتا ایسا کر تے رہتے ہیں اور یہ فطرت انسان نے کہاں سے ادھار لی؟ غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ ہر خوبصورت نظر آنے والی تصویر کے نیچے موجودگتے کا اصلی رنگ اتنا خوبصورت نہیں ہو تا مگر پینٹ اور برش کی مدد سے بڑی محنت سے انسان بلکہ فطرت بھی اسے یوں دلکش بناتی ہے کہ دیکھنے والے واہ واہ کئے بغیر نہ رہ سکیں۔۔ دوسروں سے واہ واہ کروانے کا اور اس واہ واہ کو سن کر خود سے محبت کرنے کا عمل انسان نے اسی فطرت سے لیا ہے۔ ورنہ اس بات کی گردان اتنی مرتبہ کیوں ہو تی کہ” اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے”۔۔”
وہ یہ باتیں سوچتے سوچتے سو جاتی اور جب سو کر اٹھتی تو پھر سے یہی الجھی، بے لگام، باغی سوچیں اس کو آ دبوچتیں،وہ سوچتی ان سوچوں کا کوئی ایک بھی ساتھی ہو تو انسان اٹھ کر چلنے کی ہمت کر سکتا ہے، یعنی کہ زندہ رہا جا سکتا ہے مگر وہ ایسا سوچ کر ہی رہ جاتی، ایسی باتیں کسی سے کرنے کا مطلب تھا یا تو اس پر فتوی لگا دیاجاتا اور یا پھر اس کے ماتھے پر نفسیاتی کا ٹیکہ لگا کر اس کے بچوں کے مستبقل کو تاریک کر دیا جاتا۔ سچ ہی تو ہے کہ اگر کوئی نفسیاتی مریض مشہور ہو جائے تو اس کے بچوں کے رشتوں میں رکاوٹ آنے لگتی ہے کہ ایسی عورت یا مرد کے بچوں میں بھی ایسی ہی پیچیدگیاں ہو ں گی۔ حالانکہ کوئی سکون سے بیٹھ کر ایک دن یہ دیکھے تو سہی کہ نارمل اور ابنارمل کی تعریف کیا تھی، کیا ہے اور مستقبل میں کیا ہو گی؟ اس کی اپنی سوچ تو یہ تھی کہ ہماری سوسائٹی یا کمیونٹی میں ابنارملٹی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ آفیشلی نارمل کی تعریف بھی ابنارمل ہی ہو چکی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہر کوئی خود کو نارمل اور دوسرے کو ابنارمل سوچنے پر اصرار کرتا ہے، خاص کر وہ لوگ جو معیاری انسانی رویوں اور اقدار کی بات کرتے ہیں۔اب صرف اقتدار کی بات ہو تی ہے،اقدار کی نہیں۔۔ اور وہ چاہے ملک پر ہو، ممالک پر یا ایک دوسرے کے اوپر۔۔ اقتدار کا لفظ بھی شاید مناسب نہیں۔۔اس نے سوچا قبضہ گروپ۔۔ ہاں! قبضہ گروپ۔۔ یہ لفظ سوچ کر اسے بہت تسلی ہو ئی۔ سچ ہی تو ہے جو قبضہ کر لے وہی سمجھدار، نارمل اور قابل تقلید،چاہے یہ قبضہ چاہے زمین پر ہو یا انسانوں کی سوچ پراورجس نے ہوشیاری سے کام دکھایا وہی سکندر اور اس سکندر کے ہاتھ میں نہ صرف اس کا بلکہ سب کا مقدر آجا تا ہے۔
اس نے جب یہ باتیں اپنی ماں سے کرنے کی کوشش کی تو اس نے کہا اللہ پر توکل رکھو، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو اور بس ہمیشہ مثبت سوچو۔ اگر کو ئی تم سے اچھا سلوک نہیں کرتا تو اسے بھی معاف کر دو اور بس لوگوں کے کام آتی جاؤ اور اس کا صلہ لوگوں سے نہیں اللہ سے مانگو۔ کسی سے کوئی امید نہ رکھو اور بس نیکی کر کے دریا میں ڈالتی جاؤ۔۔یہ ڈپریشن وپریشن کچھ نہیں ہو تا ہے۔۔ جب پانچ وقت کی نماز پڑھو گی، دعا مانگو گی اور سب انسانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی جاؤ گی۔اورجو تمھارے ساتھ برا کرے اسے معاف کرتی جاؤ گی تو دل ہمیشہ پرسکون رہے گا۔ یہ ڈپریشن اصل میں سستی یا بزدلی کا بہرحال یہ کوئی مرض نہیں ہے تم اس مغربی پروپیگنڈا کا شکارہوتی جارہی ہو، یہ مرض تو آجکل فیشن بن گیا ہے،ہر کسی کو زندگی بے معنی لگنے لگی ہے۔۔۔”
اور وہ ماں کے منہ سے حکمت کے موتی سن کر سوچتی رہ جاتی ” واہ میری ماں کتنی عقل مند ہے ایسا ہی تو ہے۔”
اس نے ماں کی نصحیتیں پلے سے باندھنے کی کوشش کی مگر وہ بندھ کے ہی نہیں دے رہی تھیں، جب نصحیتیں بار بار پلو سے کھسکتی رہیں تووہ پہلے گھبرائی اور اپنے خبطی پن کی مزید قائل ہو گئی کہ یہ اسی کے ذہن کا فتور ہے اور کچھ نہیں اور یہ فتور مغربی میڈیا اور کتابوں نے اس کے اندر بھر دیا ہے مگر اچانک ہی اس کے منتشردماغ میں وہ سب واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے جب ماں اپنے ساتھ برا کرنے یا سوچنے والوں سے ساری عمر کے لئے قطع تعلق کر دیا کرتی تھی یا ان کے خلاف غصہ دل میں بھرے بیٹھی زہر اگلا کرتی تھی،کسی غریب رشتے دار کے ساتھ برتاؤکسی اور طرح کا اور امیر کے ساتھ بالکل اور طرح کا ہوتا تھا۔اس کا کئیرئیر بنانے یا آگے بڑھنے میں جب بھی ماں نے کچھ کہا تو یہی کہا کہ نمبر ون پر آجاؤ۔۔۔کبھی یہ نہیں کہا کہ کسی دوسرے کا حق مار کر نمبر ون کبھی نہ آنا۔ یہ باتیں یاد آنے کے باوجود وہ ماں کو یہ سب باتیں یاد نہیں دلاسکتی تھی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتی تو، اس کی دنیا تو پہلے سے ہی عذاب بن چکی تھی، اب اس کی جنت بھی ماں کے پیروں تلے سے کھسک جانی تھی۔
“یہ میرے دماغ کا ہی فتور ہے۔” اس نے خود پر لعنت بھیجی اور اپنی عظیم ماں کو گلے لگا لیا کہ اس نے انہیں پالنے کی خاطر کیا کیا قربانیاں نہ دی تھیں۔ وہ سوچتی ” کاش میں جب اس کے پیٹ میں تھی تو میری ماں اپنی چِپ میرے دماغ میں ہی منتقل کر دیتی کہ میری سوچیں بھی ایسی ہی دنیاوی اور مضبوط ہو جاتیں۔۔۔ ماں تو ماں ہی ہے۔ اس کا رتبہ اسلام، صوفیانہ کلام،شاعروں اورمفکروں یعنی کہ ہر جگہ بلند ہی ہے۔۔۔۔ بس میں ہی ٹھیک نہیں ہوں۔”
پھر ایک دن اس نے اپنے شوہر سے اپنے جسم کے اندر دن بدن اترتی اکتاہٹ کے بارے میں بات کرنے کی ٹھانی۔ شوہر جو ٹی وی کی خبروں اور سیاست پر لمبی لمبی بات کر نا پسند کیا کرتا تھا، اور ایسے فضول انسانی، نفسیاتی، سماجی مسائل شاید اس کے موضوعات تھے ہی نہیں ۔نہیں شائد نہیں بلکہ یقینا یہ معاملات اس کی زندگی کے دائرے سے مکمل طور پر باہر تھے اور جن پر وہ چاہتے ہوئے بھی کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے بیوی کو رسمی تسلی دی جس میں مذہبی دعاؤں اور کچھ صحت سے متعلق ٹوٹکوں کے بعد اس کا لوگوں کو حد سے زیادہ لوگوں کو حد سے باہر کرنے کی طرف اشارہ کر کے ہلکی سی لعن طعن کرنا بھی شامل تھا اور پھر وہ اسے یہ سمجھانے لگا کہ جب کسی کو اتنا سر پر چڑھاو گی اور میری بات نہیں سنو گی اور کسی کی مدد کرنے کی خاطر میری بھی نافرمانی کرو گی تو یہی انجام ہو گا کہ لوگ تمھاری کمزوری سے کھیلیں گے،استعمال کریں گے اور پھینک کر، آگے بڑھ جائیں گے اور تم پھر بس روتی رہو گی۔۔۔یہاں ” یہ” نہیں ہو تا یہ دنیا ہے،یہاں ” یوں ” نہیں ہوتا یہ دنیا ہے۔یہاں “یہ” کرنا ہوتا ہے کہ دنیا ہے یہاں ” وہ “نہیں کرناہوتا کہ دنیا ہے۔اس نے اسے تسلی دینے کی بجائے ایک لمبی تقریر کر ڈالی اور وہ شوہر کی باتیں سنتے ہی خود کو کوسنے لگی کہ میرے بھائی بھی ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ وہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ ان سے پوچھے بغیر یا ان کے علم میں لائے بغیر میں نے جب بھی کوئی کام کیا، نیک بھی ہوا تو الٹا گلے ہی پڑا اور میرا شوہر بھی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، میری وجہ سے انہیں بھی کتنی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ میرا جو زندگی سے اعتبار اٹھ رہا ہے،دل کا خالی پن بڑھ رہا ہے تو یہ کسی کی نہیں میری اپنی ہی غلطی ہے۔ مجھے لوگوں کے اور اپنے درمیان حد مقرر نہیں کرنی آتی، کوئی مدد کے لئے پکارے، تو میرے اختیار میں جو ہوتا ہے کر گزرتی ہوں۔یہ بھی کوئی طریقہ ہے زندگی گزارنے کا اور سب سے بڑھ کر یہ سب کر کے بھائیوں کی، ماں کی، شوہر کی نافرمانی کرتی ہوں یا گستاخی پتہ نہیں کون سا لفظ استعمال ہو گا یہاں مگر میرا یہ رویہ کسی طور قابل قبول نہیں جس میں میرا مجازی خدا بھی مجھے یہ سب کہہ رہا ہے یعنی وہ مجھ سے شاکی ہے،نالاں ہے مگر اس وقت کچھ کہتا نہیں جب تک مجھے اپنے کسی بھی کئے کی سزا نہیں مل رہی ہو تی۔۔۔۔ تو میری یہ خود ساختہ تکلیفیں میری اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہیں اوران سب رشتوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے۔۔ تو میں کیا کروں؟میں ایک بے کار عورت ہوں مجھے مر ہی جانا چاہیئے، اب اس زندگی میں رہ کیا گیا ہے؟ اس سمجھ بوجھ، اور عقل و دانش والی دنیا میں میں فقط ایک بوجھ ہوں اور شائد ناسور۔۔ نہ جانے میری شخصیت کی وضاحت کرنے کے لئے، کون سا ایسا گھٹیا ترین لفظ استعمال ہو گا۔۔”وہ ایسی ہی باتیں سوچتی۔
“ہاں! ہاں! مان لیا میں غلط ہوں۔۔۔ ” ایک دن اس نے آئینے کے آگے کھڑے ہو کر بھی اقبال ِ جرم کر لیا۔۔ اب تو اس کا یہ حال ہو گیا تھا کہ جو نیا پرانا دوست ملتا وہ اسے اپنی کمزوریاں اور خامیاں گنوانے لگتی کہ اس سے جلنے والے بھی اس کو خود کویوں ملامت کرنے سے روکنے لگے تھے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی تعریفیں کر نے کی کوشش کرتے اور وہ سوچتی کہ ہائے ری قسمت! کہ مجھ پر ایسا برا وقت بھی آنا تھا کہ مجھ سے حسد رکھنے والے بھی مجھ پر رحم کھانے لگے۔
اسے اس پوری دنیا میں ایک بھی ایسا ذی روح نہیں مل رہا تھا جو اسے بس یہ یقین دلا دے کہ اس کا خالی پن اس کے گناہوں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ اس کی لوگوں سے کی گئی نیکیوں کی سزا نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ خلوص کو سالم نگل گئے اور ڈکارتک نہیں مارا۔۔ کاش کوئی تو ایسا ہو جو یہ سب کہہ دے جو وہ سننا چاہتی ہے؟
“میں اٹھنا چاہتی ہوں میں جینا چاہتی ہوں۔”اس نے جب یہ بات گڑ گڑا گڑگڑا کر خود سے بار بار کی تو ایک دن اسے نیٹ پر کسی نفسیاتی کلینک کا اشتہار نظر آگیا۔ سچ ہے تڑپ اور کرب بڑھ جائے تو کائنات راستہ دکھا ہی دیتی ہے۔ اس لئے اسے یہ اشتہار پڑھ کر یوں لگ رہا تھا کہ شاید وہاں اس کلینک میں ایک ایسا مسیحا ہو گا جو اس س پر طنزکئے بغیر اس کی دل کی باتیں سن لے گا۔شاید۔۔ مگر پھر وہ رک گئی اس کی شکی
طبعیت (جو پہلے نہیں تھی کچھ سالوں سے ہو گئی تھی) نے سوچا۔۔”یعنی وہ باتیں جنہیں وہ کسی اپنے کے کندھے پر سر رکھ کر کہہ دینا چاہتی ہے۔ اپنے مرے خوابوں کو پھر سے زندگی دینا چاہتی ہے، اپنے اندر ٹھہرے سناٹے میں کنکر پھینکنا چاہتی ہے یہ سب کوئی غیرسنے گا۔ میرے درد کا مداوا کوئی غیر کرے گا!جوکوئی اپنا نہ کر سکا، نہ دوست، نہ رشتہ دار نہ سنگی نہ ساتھی وہ ایک پروفیشنل جو مجھے نہ جانتا نہ پہچانتا وہ کرے گا۔۔تو کیا اب بھی وہ عجیب باتیں سوچ رہی ہے؟ دنیا سے ہٹ کر نرالی بکواس۔۔۔؟ نہیں!!مجھے ہتھیار ڈالنے چاہئیں،اٹھنے کی یہ آخری کوشش، چاہے جیسی بھی ہے، کر لینی چاہیئے۔اچھے وقتوں میں وہ کئی کئی دن کشمکش میں رہ لیا کرتی تھی مگر اب کمزور ذہن نے اس کے جسم پر بھی نقاہت طاری کر دی تھی۔۔۔” اٹھو!! اور جینے کی یہ آخری کوشش بھی کر ڈالو۔۔ ایک گناہ اور سہی۔۔” اس نے خود سے کہا۔
اس نے نہ گھر میں نہ باہر کسی کو بتایا کہ وہ نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جا رہی ہے کہ وہ اس سے بے خبر تھی کہ اس تجربے کے کیا نتائج ہونگے۔ہمیشہ کی طرح بے اعتمادی کا شکار،چھپا کر فیصلہ کرنے کی عادت میں مبتلا،وہ کشمکش میں تھی کہ کوئی اپنا مجھے نہیں سمجھ پا یا، کسی کے پاس میرا علاج نہیں، تو یہ پیسے لے کے محض ایک گھنٹہ سننے والا مجھے کیا سمجھے گا، کیا دوا دارو کرے گا؟ مگرپھر اشتہارکہ الفاظ یاد آنے لگتے جن سے لگتا تھا کہ جیسے یہ نفسیاتی ڈاکٹر کوئی جادوگر ہو تے ہیں اور بس صدیوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کر لیتے ہیں، اور پھر سیکنڈوں میں آپ کے تمام مسائل کا حل بھی آپ کے سامنے لا رکھتے ہیں ۔
اسی آس پر اب وہ نفسیاتی ڈاکٹر کے سامنے بیٹھی اپنی چالیس سالہ زندگی کی کہانی ایک گھنٹہ میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ ابھی اس نے بچپن کے بارے میں ہی بات شروع کی تھی کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ریلہ بہہ نکلا جسے روکنے کے لئے ڈاکٹر نے اسے ٹشو پیپرز پیش کر کر کے ڈبہ خالی کر دیا۔۔۔ باقی زندگی کے ابواب ابھی وہ کھولنے ہی والی تھی کہ گھنٹہ ختم بھی ہو گیا۔۔۔۔
ماہر نفسیات نے انتہائی شفیق انداز سے(کہ اسی انداز کی وجہ سے اس کا بار بار رونے کو دل کر رہا تھا) کہا “آپ گروپ تھراپیزمیں سائن اپ ہو جائیں کیونکہ وہاں دوسروں کی کہانیاں ہو تی ہیں جو آپ کو دلاسہ دے سکتی ہیں اور اسی طرح آپ کی کہانی کسی اور کی تھراپی کر سکتی ہے۔۔” تو یہ ہوتی ہے گروپ تھراپی؟ اس نے سادگی سے پو چھا۔۔
“ہاں یہ بھی اور اس سے بھی زیادہ۔۔۔۔۔۔”سائیکلوجسٹ نے جواب دیا۔
اس سے زیادہ دیکھنے کے تجسس میں اس نے حامی بھر لی اور گروپ تھراپیز کے سیشنز میں جانے لگی۔۔۔۔۔۔۔
مگروہاں جا کر اس کے اندر کا خالی پن اور بڑھنے لگا۔۔ ۔۔وہاں اپنے اندر کی موت ہو نے والوں کا ایک گروہ موجود تھا، جو جینے کے لئے چھوٹے چھوٹے قدموں (ہفتے بھر کے لئے ٹاسک سیٹ کئے جاتے) کا سہارا لے رہے تھے۔سٹوڈنٹ لائف میں ایتھلیٹ جیسی زندگی گزارنے والی منچلی لڑکی آج سر جھکائے ایک تھکی ہاری عورت کی صورت اس گروہ کا حصہ بنی بیٹھی تھی۔ اس بات کی اذیت نے اس کی آنکھوں کو نہ جانے کتنی بار نمکین کیا۔۔۔ اور جب وہ جوان لڑکے لڑکیوں کو دیکھتی کہ جس عمر میں وہ ضرورت سے زیادہ زندہ اور زندگی سے بھرے خواب دیکھا کرتی تھی اس عمر میں یہ لوگ مر چکے ہیں یعنی کہ جینے سے پہلے ہی مر چکے ہیں تو اس سے یہ بھی شکر نہ کیا گیا کہ اس نے کم از کم وہ عمر تو بھر پو ر گزار لی تھی بلکہ اس بات نے اسے اور دکھی کر دیا کہ اس دنیا میں ایسا کیا ہو رہا ہے کہ ان جوان بچوں کے دل ابھی سے سینوں کے اندر مر گئے ہیں اور وہ مدد کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔۔ ان کا یقین، اتنی سی ہی عمر میں، رشتوں اور دوستیوں سے اٹھ گیا ہے کہ یہ خود کی تلاش میں پروفیشنلز کے پاس آپہنچے ہیں۔جو انہیں یہی کہتے جا رہے ہیں کہ دماغی مرض بھی جسمانی مرض ہی کی طرح ہے اور اس کے علاج کے لئے پروفیشنلز کے پاس آنا ضروری ہے۔اتنی دوائی لو۔۔۔ اتنے دنوں تک اور آنا۔۔۔ پھر ہم دیکھیں گے اور پھر حسبِ ضرورت دوائی کی مقدار کم یا زیادہ کر دیں گے۔
وہ وہاں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اگر میں ہجرت کے تکلیف دہ مراحل سے نہ گزرتی اور اپنے ہی ملک میں ہو تی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔۔کبھی وہ سوچتی کہ اگر میری ماں میری بات سمجھ جا تی اور مجھے سینے سے لگا لیتی تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔کبھی وہ سوچتی ہے چلو ماں نہ سہی میرا شوہر مجھے طعنے نہ دیتا اور میری غلطیوں پر اپنی عقلمندی کی مہریں نہ ثبت کرتا۔۔ یا میری وہ دوست جس پر مجھے سب سے زیادہ بھروسہ تھا وہ یہ نہ کرتی جو اس نے کیا جس کی وجہ سے میں مہینوں صدمے میں رہی تو شاید میں پھر بھی بچ جاتی۔۔ یا میری کوئی بہن مجھ سے حسد اور مقابلہ کرنے کی بجائے مجھے پیار سے سینے سے لگا کر کہتی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں یا کوئی بھائی اپنی مردانگی کا ثبوت دینے یا غیرت اور انا دکھانے کی بجائے بس مجھے گلے سے لگا لیتا۔۔تو میرے دل کی موت نہ ہو تی۔۔شاید نہ ہو تی۔۔مگر اب گروپ کے ان بچوں کو دیکھ کر اسے لگتا تھا کہ شاید اس کے احساس کی موت تب بھی ہو جاتی۔۔!
اسے پھر خیال آنے لگا کہ کاش!بچپن میں وہ باتیں نہ ہوئی ہوتیں جس سے اس کی ساری جوانی بے اعتمادی کا شکار رہی، کاش!جوانی میں اسے وہ سب مل گیا ہو تا جس کے وہ خواب دیکھتی تھی، تو ادھیڑ عمری میں وہ پرسکون ہو تی۔ اس کی زندگی میں کتنے کاش تھے۔ اتنے بہت سے کاش جب پورے نہ ہو ئے تو وہ اس حالت کو پہنچی تھی۔۔۔مگر یہ کیا؟یہ ٹین ایجرزبچے، دنیا کے بہترین ملک میں، بہترین سہولیات کے ساتھ بیٹھے کاغذ پر لکھ رہے ہیں کہ اگلے ہفتے اسی دن جب میں واپس آؤں گا تو میں نے اپنا کمرہ صاف کر لیا ہو گا، کتاب کے دو صفحات پڑھ لئے ہو ں گے اور بیس منٹ جسمانی ورزش بھی کر لی ہو گی۔۔۔ اس بھری جوانی میں محض اتنے چھوٹے چھوٹے قدم؟۔۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر اس کا سانس سینے میں رکنے لگتا۔
اسے گروپ تھراپیز میں جانے کاصرف یہ فائدہ ہوا تھا کہ اسے پتہ چل گیا تھا کہ یہ سب جو اس کے ساتھ ہو رہا تھا یکدم نہیں ہو تا ہے،اور اس کی جڑیں بہت گہری ہو تی ہیں۔ زندگی کے واقعات دہراتے دہراتے اب بھی اس کا کلیجہ پھٹنے والا ہو جاتا اور سننے والے مغربی لوگ اسے حیرت سے دیکھتے کہ گوروں کے کلچر میں اتنا برداشت اتنا ضبط تو ہے ہی نہیں۔۔تو اسے لگتا۔۔ اس کی زندگی میں جتنے دکھ کے جو بادل اکھٹے ہو چکے تھے تو انہیں کہیں نہ کہیں تو برسنا تو تھا۔۔۔ یہ تو ہو گیا۔۔۔اب کرنا کیا ہے؟اس کی کلاس اور انسٹرکٹر کا مشترکہ خیال تھا کہ جو کچھ وہ خاموش رہ کے سہہ چکی ہے اس کا تصور بھی ان کے ہاں دور دور تک نہیں ہے۔۔ سب اسے” سپر وومن” کہنے لگے، اس کی زندگی کے واقعات سن کر سب کی تھراپی ہو گئی۔۔اور اسے ٹیچر نے اور دوسرے ممبران نے یہ سکھایا کہ جو غلط لگے اسے بس غلط کر دو۔ جو بات بس سے اور برداشت سے باہر ہو بول دو۔۔ اپنے لئے اٹھو اپنے لئے بولو۔۔ لازمی نہیں کہ اپنے بڑوں کی ہر بات مانی جائے، لازمی نہیں کہ اپنے بچوں کی غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار بھی خود کو سمجھا جائے، اور یہ بھی لازمی نہیں کہ تمھاری ناکامیوں کے پیچھے صرف تمھارا ہی ہاتھ ہو۔۔ اور اگر تمھاری پرورش میں کمی تمھاری اپنی وجہ سے ہے تو تمھارے بچوں کی پرورش میں کمی تمھاری وجہ سے کیسے ہو گئی،وہ بھی ان کی اپنی وجہ سے ہو سکتی ہے نا!۔۔ ہر بات کا الزام خود پر نہ لو۔۔خود پر اعتماد رکھو، اپنے لئے جینا شروع کرو۔۔ بڑوں کی غلط باتوں پر یا جو مانی نہ جا سکیں انہیں انکار بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ
ایسی کئی باتیں سیکھ کر وہ گھر آتی تو سوچتی اب کے وہ ان پر عمل شروع کر دے گی اور جو دل میں ہو گا کہہ دیا کرے گی۔ اس نے اب جینا ہے اپنے لیئے جینا ہے۔ پہلا تجربہ اسے اپنی بڑی بہن کے ساتھ ہوا جو حسب ِ معمول اسے اپنی خاطر اسے کچھ کرنے کو کہہ رہی تھی اسے لگا یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اگر وہ یہ کام اپنی بہن کے لئے کرتی ہے تو ایک تو وقت کا ضیاع ہے دوسرا اس کی بہن نے اس کے لئے ایسا کچھ کبھی نہیں کیا۔۔ پر جب اس نے یہ بات اپنی بہن کو بالکل اسی طرح کہہ دی جیسا کہ گروپ تھراپی میں اسے سکھایا گیاتھا تو وہ بہن جسے اس سے انکار سننے کی عادت نہیں تھی اور جو اپنے آپ کو عظیم اور اسے حقیر سمجھنے کی برسوں پرانی عادت میں مبتلا تھی، تڑپ کر رہ گئی اور پھر سارے خاندان میں ایک اودھم مچ گیا۔۔ ارے یہ تو اتنی بدتمیز نہیں تھی اسے کیا ہو گیا۔۔
“بیٹا!! آپ صبر سے کام لیں اور دل بڑا کریں اگر بہن نے کبھی آپ کا اس طرح کام نہیں کیا جیسے آپ کرتی ہیں تو اس کا صلہ اللہ آپ کو دے گا۔ مگر آپ اپنی فطرت خراب کیوں کر رہی ہیں۔۔ نیکی کے راستے پر کاربند رہیں۔۔” ماں نے سمجھایا۔
“مگر ماں جی میرے بچے محسوس کرتے ہیں، وہ ایک مساوی حقوق والے معاشرے میں رہتے ہیں۔ یہاں کوئی بڑا چھوٹا نہیں کوئی امیر غریب نہیں یہاں انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور جو عزت کرتاہے اس کی عزت کرو اور جو نہیں کرتا اسے بتاؤ یا چھوڑ دو، اپنے آپ کی قیمت پر میں کچھ بھی کیوں برداشت کرو ں یا اپنی حد سے آگے جا کر کیوں کسی کے لئے کام کروں۔۔”
یہ کہنے کی دیر تھی کہ ا س کی ماں بھڑک اٹھی”تم اب ماں کو باتیں سناؤ گی؟ تمھارے بچے تمھاری ماں سے بھی بڑے ہو گئے۔۔ تمھیں پالا، تمھارے بچوں کے ناز اٹھائے۔۔” ماں کب آپ سے تم پر اتر آئی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
تو میں نے کیا اپنے کسی فرض سے کوتاہی کی؟ کیا میں نے بچپن سے ہی آپ کے ساتھ مل کر زندگی کی مشکلات کا سامنا نہیں کیا؟ کیا میں نے کبھی کوئی ناجائز فرمائش کی؟اس کے انداز میں تلخی اور احتجاج اتر آیا۔
“میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اتنی بدتمیز ہو جاؤ گی۔۔ جاؤ دفع ہو جاؤ، آئندہ مجھ سے بات نہ کرنا۔۔ یہ ہے ماں کا حترام تمھاری نظر میں۔۔۔” ماں کی زبان شعلے اگلنے لگی۔
لیکن میں تو کہہ رہی کہ وہ بڑا دل۔۔ وہ اعلی ظرفی، وہ نیکی، اللہ سے صلہ۔۔۔۔ گھبراہٹ میں اس کے الفاظ منہ میں دانوں کی طرح بھننے لگے مگر اپنا مفہوم نہ بنا پا ئے۔۔ ماں غصے سے اٹھ کر چلی گئی اور وہ پھر سے خوفزدہ ہو کہ دبک سی گئی اور اس کے آگے جہنم کی آگ ناچنے لگی
۔ ۔ ۔ اس نے ہمت نہ ہاری دوسرا تجربہ اپنی پرانی سہیلی پر کیا جس کی چالاکیوں سے وہ سخت نالاں تھی ، وہ چاہتی تھی کہ اس کی منافقت اس کے منہ پر کھول کے رکھ دے کہ اس کے دوغلے رویے کو نظر انداز کرتے کرتے وہ تھک چکی تھی اس نے سوچا، اب کیسا چپ رہنا تھراپسٹ نے یہی تو کہا تھا کہ جو بات بری لگے جس کی بات بری لگے اسے ضرور بتا دو ۔ ۔ چلو رشتے داروں میں تجربہ ناکام ہو گیا مگر دوستوں کے ساتھ بھی یہی سب کچھ برداشت کر کے رہنا پڑا تو پھر کیا فائدہ میں تو خود کو اور بیمار کرتی جاءوں گی،;34; اس نے سوچا ۔ یہی سوچ کر اس نے اپنی سہیلی کی اس غلط بات کے بارے میں جو پیٹھ پیچھے اس کے لئے سب سے کرتی پھر رہی تھی،یہلیوں کے گروپ میں کھل کر بات کی تو وہ دوست جسے اتنے سالوں میں کنٹرول کرنے اور مکاریاں دکھانے کی عادت پڑ چکی تھی ،حیران پریشان اسے تکنے لگی ۔ ۔ ۔ اس وقت تو وہ چپ ہو گئی ۔ بات کو ٹال گئی مگر بعد میں اس نے ایک ایک سہیلی کوگمراہ کرناشروع کیا کہ اسے ضرور کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو گیا ہے ۔ لگتا ہے اس کو گھر میں کو ئی پریشانی ہے ورنہ یہ تو ایسی نہیں تھی ۔ یوں دھیرے دھیرے سب سہیلیاں اس سے بچ کر رہنے لگیں کہ اسے سچ بات منہ پر کہہ دینے کی یہ جو بیماری لگ چکی ہے ا س کا مطلب ہے کہ اس کی قوت ِ برداشت ختم ہو گئی ہے جو اسلام کے اصولوں کے منافی ہے اور یہ یقیناکسی بہت بڑی نفسیاتی بیماری کا شکار ہوگئی ہے ۔

وہ سوچ رہی تھی;34; تھراپسٹ نے مجھے تو بتا دیا کہ جو برا لگے اس کا اظہار ضروری ہے ۔ اپنے آپ کی عزت کروانا سب سے ضروری ہے ۔ خود کو مار کر کسی کے کام آنا کوئی عقلمندی نہیں اور ماں ، باپ ، بڑا بھائی ، بڑی بہن ، چھوٹا بھائی ، پرانی دوست ، نئی دوست کوئی اور رشتے دار جو کوئی بھی ہو ، ان کی غلط بات پر خاموش رہنے کی بجائے ان سے بات چیت ہو سکتی ہے ۔ انہیں اچھے طریقے سے بتا دینا چاہیئے کہ ہماری برداشت کی حد کہاں تک ہے ۔ میں یہ کام کر سکتی یا نہیں کر سکتی ہوں یا نہیں کر سکتی ۔ ۔ ۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی ،پلیز میرے سامنے یوں نہ کیا کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے پر تھراپسٹ نے توصرف مجھے سمجھایا ہے کہ کیا کرنا ہے مگرجن لوگوں سے میرا واسطہ پڑنا ہے وہ تو کبھی تھراپسٹ کے پاس نہیں گئے ۔ لہذا میں جینے کایہ ماڈرن ڈھنگ سیکھ بھی جاءوں تو میرے اگلوں پچھلوں نے تو یہ نہیں سیکھا ۔ ;34;

شکر ہے اسے بر وقت عقل آگئی ورنہ وہ اگلا تجربہ اپنے شوہر کے ساتھ کرنے ہی والی تھی ۔ ۔ اوراس کے بعد بتانے کی ضرورت نہ رہتی کہ اس کا انجام نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس صرف تھراپی کے لئے جانا نہیں ہوتابلکہ اس کی آخری منزل نفسیاتی ہسپتال ہی ہوتی اور پھر وہ اسے دوائیوں سے ٹھیک کرتے یا بجلی کے جھٹکے لگاتے ۔ ۔ یہ ان کی مرضی اور اس کی برداشت ہوتی ۔ ۔ ۔ باقی دنیا کا اس سے کیا لینا دینا ہو تا ۔ ۔ ۔

اپنی بر وقت بیداری پر اس نے خود کو مبارکباد دی ۔ ۔ چہرے کو میک اپ میں چھپایا اور ہنستی ہو ئی شہر کی ایک پر رونق تقریب کا حصہ بن گئی جہاں لوگ اس کی ہنسی کو دیکھ کر اس پر رشک کر رہے تھے کہ انسان جئے تو یوں زندہ دلی سے جئیے اور وہ خود کو چپکے سے بتا رہی تھی کہ مرض کا علاج نہ ہو توکیا ہوا مرض کے ساتھ جینا تو آنا چاہیئے ۔ ۔ یہ بات سمجھنے کے لئے اس نے کتنے سال یونہی ضائع کر دئیے ۔

چلو دیر آید مگر آید تو سہی